اسی طرح سورج اپنی گردش میں ہر وقت امرالہی کا محتاج ہے اور گویا کہ سورج ہمہ وقت امر الہی کے سامنے سجدہ ریز ہے اور اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے مقناطیس اور کشش پیدا کرنے کے لئے گیس، انرجی اور ایدھن کا محتاج ہے۔ قرب قیامت میں گیس ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے مقناطیس ختم ہوجائے گا اور کشش بھی کمزور پڑجائے گی نتیجے کے طور پر سورج آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ پڑے گا گویا کہ اس کو اللہ کی جانب سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ملی بل کہ پیچھے لوٹنے کا حکم ملا، جب سورج پیچھے لوٹے گا تو زمین کی گردش بھی اُلٹی ہوجائے گی، یعنی ابھی زمین مغرب سے مشرق کی طرف گھوم رہی ہے اس وقت وہ اُلٹی گھومے گی یعنی مشرق سے مغرب کی طرف گھومے گی اور سورج مغرب سے نکلتا ہوا اور مشرق میں ڈوبتا ہوا نظر آئے گا۔
سورج بھڑکتا ہوا چراغ ہے
سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ سورج میں ۷۵ فیصد ہائیڈروجن گیس ہے اور ۲۵ فی صد ہیلیم گیس ہے ہائیڈ وجن گیس ہمہ وقت ہیلیم گیس میں تبدیل ہوتی رہتی ہے ایک سیکنڈ میں 600,000,000(ساٹھ کروڑ) ٹن ہائیڈروجن گیس ہیلیم میں تبدیل ہوتی ہے۔ جب یہ ہیلیم گیس میں تبدیل ہوتی ہے تو سورج میں زبر دست گرمی پیداہوتی ہے۔ سورج کے اندر کی جانب 15,000,000(ایک کروڑ پچاس لاکھ) سینٹی گریڈ یا 2,70 000,000(دوکروڑ سترلاکھ) فارن ہیٹ گرمی ہے اور سورج کی اوپر کی سطح پر 5,500پانچ ہزار پانچ سو سینٹی گریڈ یا 9, 900 (نوہزار نوسو) فارن ہیٹ گرمی ہے اس میں ہمہ وقت آگ بھڑکتی رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کے شعلے کئی ہزار میل اٹھتے رہتے ہیں ، گیس کی تبدیلی کی وجہ سے بھی اس میں کئی ہزار میل کے فوارے اٹھتے رہتے ہیں اور وہ فوارے آگ کی شکل کے شعلے ہوتے ہیں ، یہی گرمی اور روشنی زمین پر اور چاند پر اور سورج کے ساتھ گھومنے والے باقی آٹھ سیاروں پر جاتیں ہیں ، زمین چاند اور باقی آٹھ سیارے منجمد مٹی کی طرح ہے اور ٹھنڈے ہیں ان میں اپنی گرمی نہیں ہے اور نہ ہی اپنی روشنی ہے یہ سورج کی گرمی سے گرم ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی سے روشن ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم نے سانئسی تحقیقات سے بہت پہلے اعلان کیا تھا کہ سورج میں اپنی گرمی اور اپنی روشنی ہے بلکہ وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کا گولا ہے، آپ خالق کائنات کے ان آیتوں کو غور سے