پڑھیں وَجَعَلْنَا سِرَاجَاً وَّ ھَّاجًا (سورۃ انبیاء ۷۸ آیت ۱۳) ترجمہ : اور ہم نے ہی بھڑکتا ہوا چراغ بنایا وَھَّاج کے معنی بہت بھڑکنے کے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج میں بہت لمبے لمبے شعلے اٹھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتہائی تیز بھڑکتا ہے، اور یہی بات سائنس کہتی ہے آپ دوسری آیت کو بھی پڑھ لیں ، وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْراً وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (سورۃ نوح ۷۱ آیت ۱۶) ترجمہ : اور ان میں چاند کو نور کی چیز بنایا اور آفتاب کو چراغ کی طرح روشن بنایا، چراغ میں روشنی اپنی ہوتی ہے اس سے پتہ چلا کہ سورج میں گرمی اور روشنی اپنی ہے اور چاند اور زمین کی طرح دوسروں کی روشنی سے منور نہیں ہے۔
چاند کی روشنی اپنی نہیں ہے
سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ چاند زمین ہی کی طرح ٹھنڈا ہے اس میں آگ نہیں ہے اس میں روشنی بھی نہیں ہے چاند پر سفید ریت ہے اس لئے سورج کی روشنی اس پر پڑتی ہے تو وہ چمک اُٹھتا ہے اور اہل زمین کو چاند روشن نظر آتا ہے۔
خالق کائنات نے اپنی دائمی کتاب میں بھی سورج اور چاند کے درمیان روشنی کو الگ الگ کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ سورج میں بھڑ کتی ہوئی آگ ہے اور چاند دوسروں کی روشنی سے منور ہوتا ہے ارشاد ربانی ہے وَجَعَلَ القَمَرَ فِیْھِنَّ نُوراً وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (سورۃ نوح ۷۱ آیت ۱۶) ترجمہ: اور ان میں چاند کو نورانی چیز بنایا اور آفتاب کو چراغ کی طرح روشن بنایا۔ دوسری آیت میں ہے تَبَارَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِیْ السَّمَآئِ بُرُوْجأ وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرا جأ وَّ قَمَراً مُّنِیْراً (سورۃ الفرقان ۲۵ آیت ۶۱) ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے بنائے اور اس میں ایک چراغ اور نورانی چاند بنادیا۔ ان دونوں آیتوں میں سورج کو ’’ سراج‘‘ چراغ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اپنی روشنی ہے اور چاند کو منیر کہا ہے یا اس میں نور ہونا کہاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اپنی روشنی ہے اور چاند کو منیر کہا ہے یا اس میں نور ہونا کہا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس میں اپنی روشنی نہیں ہے بل کہ دوسرے کی روشنی سے روشن ومنور ہوتا ہے جو بات سائنس نے برسوں بعد کہی ہے وہ بات قرآن نے صرف ایک لفظ میں بہت پہلے بیان کردیا تھا۔