ہے کہ ایک آدمی ایک رات میں آسمان پر چلاجائے اور رات کی رات میں واپس آجائے ؟ اوپر تو آگ ہے جلادے گی، بعض طبقے میں سردی ہے جو برف بنادیگی، پھر اتنی جلدی اتنی دور کا سفر ناممکن ہے اس لئے معراج رسولؐ نعوذ باللہ جھوٹ معلوم ہوتی ہے۔
آج انسان راکٹ کے ذریعہ چاند اور ستاروں پر اتنی تیزی سے جارہے ہیں کہ عقل حیران ہے اگر انسان مشین کے ذریعہ چاند اور مریخ پر جاسکتے ہیں ، حفاظتی تدابیر کرنے کے بعد ان کو برف اور آگ کوئی گزند نہیں پہنچاسکتی تو خالق کائنات کے حکم سے حضور ؐ چند لمحے میں آسمان پر تشریف لے جائیں اور واپس آجائیں تو اس میں کیا بعد ہے۔
اس وقت سائنس تصدیق کرتی ہے کہ ایک آدمی برق رفتاری کے ساتھ آسمان پر جاسکتا ہے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرے تو آگ اور برف اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی، قرآن واقعی اللہ کی کتاب ہے۔ جوبات اس نے کہی سائنس اس کے حقائق کی تائید کرنے پر مجبور ہے۔
قیامت میں ہاتھ پاؤں بولیں گے
ٹیلی ویژن میں لوہا، کرنٹ، مقناطیس، تار اور شیشہ ہوتے ہیں ۔ ان کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ وہ فضا میں پھیلے ہوئے ارلوں آوازوں عملوں اور کو گرفت کرتے ہیں پھر خود بھی بولتے ہیں اور دوسروں کو بھی سناتے ہیں ۔ اور ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ ان کو سالوں کے لئے محفوظ بھی رکھتے ہیں ۔ اگر ٹیلی ویژن کا لوہا اور مقناطیس فضا میں پھیلے ہوئے عملوں کو دیکھ سکتا ہے، اس کی آواز کو گرفت کرسکتا ہے اور ان آوازوں کو بول سکتا ہے اور دوسروں کو سنا سکتا ہے اور تصویریں دکھا سکتا ہے تو کل قیامت کے روز ہمارے ہاتھ اور پاؤں اور کھا ل حکم خداوندی سے کیوں نہیں بول سکتے اور شہادت دے سکتے۔
خالق ارض وسماء فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز میں انسانوں کے منہ پر مہر لگا دونگا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں سے ان کی کمائی کے بارے میں گواہی دلواؤنگا ارشاد ربانی ہے۔ اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اَفْوَھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْ یَکْسِبُوْنَ (سورۃ یٰسین ۳۶ آیت ۶۵) ترجمہ: آج ہم کافروں کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ بات کریں گے اور پاؤں شہادت دیں گے کہ یہ لوگ کیا کیا کرتے رہتے تھے دوسری آیت میں ہے حَتّٰی اِذَا