انسان کو تین اندھیروں میں پیدا کیا
سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ انسان تین اندھیروں میں پیدا ہوتا ہے
(۱) ایک شرمگاہ کا خول جس کو شکم مادر کی چھت کہتے ہیں ۔
(۲) دوسری اندھیری بچہ دانی ہے جس کو عربی میں رحم کہتے ہیں ۔
(۳) تیسری اندھیری پانی کی تھیلی ہے انڈا بار آور ہوتا ہے تو کیڑا بچہ بنتا ہے اور انڈے کا خول بچے کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور وہ ایک تھیلی سا بن جاتاہے اس تھیلی میں پانی بھرجاتا ہے اسی پانی میں بچہ تیرتا رہتا ہے اور بڑھتا رہتا ہے یہ پانی بچے کو اوپر کی زدسے بھی محفوظ رکھتا ہے اور نقصان دہ جراثیم سے بھی محفوظ رکھتا ہے تو گویا کہ تین اندھیریا ں ہوئیں شکم مادر کی چھت، رحم اور پانی کی تھیلی ان تین اندھیریوں میں جنین (بچہ) پرورش پاتا ہے
قرآن کریم نے اسی حقیقت کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا یَخْلُقًکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدٍ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ (سورۃ الزمر ۳۹ آیت ۶) ترجمہ: اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں بناتا ہے ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت پر تین تین تاریکیوں میں واقعی رب العالمین تین تین اندھیریوں میں انسانوں کو پیدا کرتا ہے جہاں انسان کی نظر کی بھی رسائی نہیں ہوتی وہاں خالق کائنات کی قدرت کا مظاہرہ ہوتا ہے سائنس نے ان تین اندھیریوں کا پتہ لگایا تو قرآنی تحقیقات پر حیراں ہوگئی۔
نزول قرآن کے وقت تخلیق کے ان مراحل کی تحقیق نہیں ہوئی تھی ابھی سائنس نے ایک سرے اور خرد بین کے ذریعہ ان مراحل کی تحقیق کی تو انسانی عقل حیران ہے کہ کس طرح ای باریک جرثومہ کو ہزاروں حادثات کے سامنے کھڑا کرکے چند مہینوں میں کئی کیلو وزن کا بچہ بنادیا جاتا ہے اور پھر کس طر ح اس کو چلتا پھرتا عقلمند انسان بناکر پیش کرتے ہیں ، پھر عجیب بات یہ ہے کہ جن مراحل کا تذکرہ قرآن پاک کرتا ہے ڈاکڑی تحقیقات حرف بحرف ان کی تصدیق کرتی چلی جارہی ہے، جس سے سوفی صد یقین ہوتا ہے کہ یہ رب العالمین کی کتاب ہے کسی انسان کی تصنیف نہیں ، یہ کتا ب فصاحت وبلاغت میں بھی معجزہ ہے اور سائنسی تحقیقات کے معیار پر بھی سراپا معجزہ ہی معجزہ ہے۔