ہیں اور سانس کے ذریعہ اندر لے لیتے ہیں اور اس کو آکسیجن میں تبدیل کرکے باہر پھینکتے ہیں ، یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے، اگر سبز نباتات اور پتے فضا سے کاربن ڈائی اکسائڈ نہ کھائیں اور اس کے بدلے آکسیجن نہ پھیکیں تو جانور اور انسان کی سانسوں کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی اکسائڈ بہت زیادہ ہوجائے اور آکسیجن بہت کم ہوجائے جس کی وجہ سے حیوانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے سیارے پر آکسیجن یا تو بالکل نہیں ہے یا بہت کم مقدار میں ہے اس لئے ان سیاروں پر انسانی یا حیوانی زندگی نہیں ہے۔
اللہ کا عجیب نظام ہے کہ انہوں نے سبز مادے اور نباتات پیدا کرکے زمین پر آکسیجن کاوافر انتظام کردیا، رب العالمین نے اسی طرف متوجہ کرتے ہوئے انسان پر احسان جتلایا ہے کہ میں نے تمہارے لئے سبز مادے اور نباتات پیدا کئے ہیں ارشاد ہے وَھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَآئً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَئیٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِراً نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبَّاً مُّتَرَاکِباً (سورۃ الانعام ۶ آیت ۹۹) ترجمہ: وہی اللہ توہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا پھر ہمنے اس سے سبز شاخ نکالی کہ ہم اس سے اوپر تلے چڑھ دانے نکالتے ہیں اس آیت میں ہر قسم کی نباتات اور سبز شاخیں اور پتوں کی اہمیت بیان کی ان سے جہاں پھل پھول نکلتے ہیں وہیں وافر مقدار میں آکسیجن بھی حاصل ہوتا ہے آکسیجن سبز مادے اور پتوں سے زیادہ نکلتا ہے اس لئے خضرا کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا۔
آج سے چودہ سوسال پہلے جب کہ آکسیجن اور کاربن ڈائی اکسائڈ کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ اس کی کوئی تحقیق تھی کہ انسان آکسیجن کو سانس میں لیتا ہے اور کاربن ڈائی اکسائڈ پھینکتا ہے اور درخت اور خاص طور پر سبز پتیاں کار بن ڈائی اکسائڈ کھاتیں ہیں اور آکسیجن پھینکتیں ہیں اس زمانے میں خالق کائنات نے اس کی اہمیت اور اس کی افادیت کو پر زور انداز میں بیان کیا۔
پیدائش کے مراحل
قرآن کریم نے انسانی تخلیق کے بہت سے مراحل کا تذکرہ کیا ہے اور ہر ہر مرحلے پر عجیب عجیب حکمتوں کو بیان کیا ہے اور ان کے بارے میں انسانوں پر احساسات جتائے ہیں ، جب تک ڈاکٹری تحقیقات نے ترقی نہیں کی تھی، خورد بین سے ہر ہر سیل کو دیکھا نہیں گیا تھا، سرجری نے