موصل اور دریائے دجلہ کے مشرق میں دریائے زاب کے قریب واقع ہے اس کے علاوہ توریت، انجیل وغیرہ میں بھی اس طوفان کا تذکرہ موجود ہے، کھدائی کی تخلیوں نے ثابت کردیا کہ قرآن میں طوفان نوح کا تذکرہ بالکل صحیح ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہزاروں سال کے بعد قرآن کی صداقت تحقیقات کے ذریعہ ثابت ہورہی ہے ارشاد ربانی ہے وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّاکَذَّبُوْ الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰہُم وَجَعَلْنٰہُمْ لِلنَّاسِ آیَۃً (سورۃ الفرقان ۲۵ آیت ۳۷) ترجمہ: اور ہم نے قوم نوح کو بھی ہلاد کیا جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا ہم نے انہیں غرق کردیا اور ہم نے انہیں ایک نشان عبرت بنا دیا دوسری آیت میں ہے وَقُضِیَ الْاَمْرَ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیّ وَقِیْلَ بُعْدا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ ہود ۱۱ آیت ۴۴) ترجمہ: اور کام پورا ہوگیا اور کشتی جودی پر آکر ٹھہری اور کہ دیا گیا کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے لوگ رحمت سے دور ہوگئے۔
طوفان نوح کے بارے میں قرآن نے جو کچھ کہا آج کی علم حفریات اور خدائی معلومات نے ان تمام باتوں کی تصدیق کردی۔ آج سینکڑوں سال کے بعد قرآن کے سائنسی معجزات آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے ہیں ۔
اصحاب کہف کا غار
عمان شہر اردن کے تین میل کے فاصلے پر ۱۹۶۳ء میں ایک غار کا انکشاف ہوا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ غار اصحاب کہف کا ہے، اگر یہ حقیقت میں وہی غار ہے جس میں اصحاب کہف سوئے تھے تو قرآن کے ایک عجیب معجزے کا اظہار ہے۔
۸مئی ۱۹۹۶ ء کو دوپہر کے وقت میں خود اس غار پر گیا ہوں ، بیان قرآن کے بہت سے قرائن اس غار میں پائے جاتے ہیں مثلاً (۱) غار کا منہ جنوب کی جانب ہے کوئی آدمی غار میں داخل ہونے کے لئے کھڑا ہو تو اعلان قرآن کے مطابق سورج غار کی دائیں جانب سے نکلتا ہے اور اس کی بائیں جانب غروب ہوتا ہے (۲) سورج کی کرنیں غار کے دروازے تک آتی ہیں غار کے اندر داخل نہیں ہوپاتیں ۔ البتہ روشنی کا عکس غار کے اندرخوب جاتا ہے (۳) غار کا منہ اتنا کشادہ نہیں ہے لیکن غار اندرسے کافی کشادہ ہے جس میں تقریباً پندرہ آدمی بآسانی سوسکتے ہوں جو وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِنْہُ کا منظر پیش کرتاہے (۴) بیداری کے بعد ایک ساتھی کو کھانالانے کے لئے شہر روانہ کیا تھا