سات آسمان تہ بتہ پیدا کردئیے آپ خدارحمن کی کاریگری میں کوئی نقص وفطور نہیں دیکھیں گے پھر نگاہ ڈال کر دیکھیں نگاہ ہی آخر ذلیل ودر ماندہ ہوکر آپ کی طرف لوٹ آئے گی۔ آیت میں کتنی وضاحت کے ساتھ اعلان کیا کہ تخلیق خداوندی میں خامی تو کیا نظر آئے گی آپ کی نگاہ ہی عاجز ہوکر واپس ہوجائے گی اور پہلے آسمان کی چھت تک بھی آپ کی نگاہ کی رسائی نہیں ہوپائے گی، آج جو عاجزی اہل سائنس کو ہورہی ہے اس کا اعلان رب کائنات نے بہت پہلے کردیا تھا۔
آسمان کس کو کہتے ہیں
عربی کا لفظ ’’ سماء ‘‘ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے
(۱) کل مافوق فہواسماء، جوکچھ آپ کے اوپر ہے اس کو آسمان کہتے ہیں اس اعتبار سے بارش اوپر سے برستی ہے جو بادل سے رس رس کر آتی ہے تو اس کو بھی’’سما‘‘ آسمان کہیں گے، اس محاورے کے اعتبار سے قرآن نے متعدد باربارش برسنے کے مقام کو ’’ السماء ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ارشاد ہے فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَائِ مَائً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ (سورۃ الحجر ۱۵ آیت ۲۲) ترجمہ: پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہی پانی ہم تم کو پلاتے ہیں ، وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً (سورۃ البقرہ ۲ آیت ۲۲) ترجمہ: اور آسمان سے پانی اتارا، ان آیتوں میں جس سے بارش برستی ہے اور آسمان کی چھت سے بہت نیچے ہے زمین سے صرف نو، دس میل اونچائی تک بادل ہوتا ہے اس کو آسمان کہا ہے ـ۔ حالانکہ اس سے تو اربوں کھربوں میل دور آسمان کی چھت ہے
(۲) کچھ سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ فضاء میں لاکھوں کہکشاں ہیں ان میں سے ہر کہکشاں کی اپنی اپنی حدود ہیں ایک کہکشاں کی ساری حدود ملاکر ان کو ایک آسمان قرار دے دیا جائے اس طرح جتنے کہکشاں ہوں گے اتنے آسمان مان لئے جائیں گے۔
(۳) تیسرا نظریہ یہ ہے کہ سارے ستارے سیارے اور تمام کہکشاں میں پہلے آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور پہلے آسمان کی چھت ان تمام کہکشاؤں اور مجموعہ جھرمٹ کہکشاں Super Clusterسے بھی اوپر ہے اور ہر آسمان اپنے نیچے کے آسمان کو محیط ہے اس نظریئے کی تائید ان آیات سے ہوتی ہے ارشاد ربانی ہے۔ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالاَرْضِ لَا ٰیٰتٍ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ (سورۃ البقرہ ۲ آیت ۱۶۴) ترجمہ : اور بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر