جھلیوں پر کس طرح چپکتاہے، اس سے خون چوستا ہے اور بڑا ہوکر انسان بنتا ہے، اتنا باریک کیڑا، اتنا بار انڈا کہ ذرا ساخون کا دوران تیز ہوجائے تو کیڑا بہ جائے لمٹ سے زیادہ خون گرم ہوجائے تو کیڑا جل جائے یا رحم کی دیوار رگڑ کھاجاٖئے تو کیڑا مسل جائے لیکن ان تمام حوادثات کے باوجود خالق کائنات اس باریک سے کیڑے کو اس مقام پر محفوظ رکھتا ہے، اس کو روزی پہنچاتا اور اس کی حیات کے لئے تمام اسباب مہیا کرتا ہے اور نوماہ تک اس اندھیری کوٹھری میں رکھ کر اس کی پرورش کرتا ہے اور انتہائی حسین اور معصوم چہرہ دیکھ کر اس کو باہر نکالتا ہے خالق ارض وسماء اپنی قدرت کی طرف متوجہ کراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانوں غور تو کرو کہ اتنے حوادثات کے سامنے میں تمہارے جرثومہ (کیڑا) کو محفوظ ومامون رکھا اور جرثومہ کے لئے ایسی خطرناک جگہ کو قرار مکین محفوظ جگہ بنادیا ارشاد ہے فَجَعَلْنٰہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنِ اِلَی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٖ (سورۃ المرسلت ۷۷ آیت ۲۱۔ ۲۲) ترجمہ : پھر ہم نے نطفہ کو ایک مقرر وقت تک ایک محفوظ جگہ میں رکھا، دوسری جگہ ہے ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍا مَّکِیْنٍ (سورۃ المومنون ۲۳ آیت ۱۳) ترجمہ: پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا ایک محفوظ مقامیں ۔مقام کی خطرناکی، جراثیم کی کمزوری اور اس کی باریکی کا تصور کریں پھر کس طرح رب العالمین نے محفوظ ومامون رکھا اور اس کو بڑھاکر اور بالیدگی دیکر ہٹاکٹا انسان بنایا اس پر غورکریں تو عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے۔
نطفہ کے بعد علقہ بنتا ہے
پچھلے صفحے پر ڈاکڑی تحقیق گذری کہ انڈا بارآور ہونے کے بعد رحم میں آکر حیض کی جھلیوں پر آکر چپک جاتا ہے کیڑے کا ایک سرا جھلیوں چپکتاہے اور خون چوستا ہے یہی سرا بعد میں موٹا ہوکر ’’ آنول نال ‘‘ کہلاتا ہے یہ بٹی ہوئی رسی کی طرح دیکھائی دیتی ہے آنول نال کاجوسرا جھلیوں سے چمٹتا ہے اس کی ساخت درخت کی جڑ کی طرح ہوتی ہے، جس طرح جڑمٹی سے رس چوستی ہے اسی طرح آنول نال کی باریک باریک رگیں حیض کی جھلیوں سے خون چوستی رہتیں ہیں انڈا ابتدائی حالت میں انہیں صفات کا حامل ہوتا ہے جو علقہ کا مفہوم ہے مثلاً
(۱) انڈا بار آور ہوکر جھلیوں سے چپکنے کے وقت میں بالکل معمولی ہوتا ہے
(۲) خون کا لتھڑا سا ہوتا ہے