لوگوں کے لئے عبرت کی چیزیں ہیں ، اور اگر یہ چیزیں وہی نہیں ہیں جن کو قرآن نے بیان کیا ہے تو راقم السطور کو اس پر اصرار نہیں ہے۔
فرعون کی لاش
قرآن نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے اور بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت بنائیں گے۔ چنانچہ آج سے کئی سو سال پہلے سے فرعون کی لاش بغیر کسی خاص دوائی کے قاہرہ کے شاہی عجائب خانہ میں محفوظ ہے، کتنے ہزار سال یہ لاش بغیر کسی دوائی کے سمندر میں رہی ہوگی پھر کئی سال ویرا نے میں پڑی رہی ہوگی۔ ابھی ترقیات کے بعد ۱۸۸۹ ء سے اس پر انسانی لاش کو محفوظ رکھنے کی دوائی لگائی ہے اور اس کو قاہرہ کے شاہی عجائب خانہ میں رکھی ہے لیکن اللہ کا کلام کتنا سچا اور پکاہے کہ ہزاروں جادثات کے بعد بھی فرعون کی لاش محفوظ ہے، ہر روز لوگ اس کی لاش کو دیکھنے جاتے ہیں ارشاد ہے فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدْنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَانَّ کَثِیْرأ مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (سورۃ یونس ۱۰ آیت ۹۲) ترجمہ: سو آج ہم تیرے جسم کو نجات دے دیں گے تاکہ تو ایک نشان عبرت پیچھے آنے والوں کے لئے رہے۔ اور بیشک بہت سے لوگ ہماری ایسی نشانیوں سے غافل ہیں ، اگر قاہرہ کے عجائب خانہ میں اسی فرعون کی لاش محفوظ ہے جس کی خبر قرآن کریم نے دی ہے تو یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ نے جو وعدہ فرمایا اس کی نشانی آج تک محفوظ ہے اگر قرآن کریم کسی انسان کی کتاب ہوتی تو نہ وہ اتنا زور دار وعدہ کرسکتا تھا اور نہ ہی لاش اتنے ہزار سال محفوظ رہ سکتی تھی۔
طوفان نوح ایک حقیقت ہے
برطانیہ محکمہ اثرات کے سابق ڈائرکٹر جنرل سرلیو نارڈ وولے نے اپنی کتابExcavation At Urمقام اُرپر حفریائی کام (ماخوذ بائبل، قرآن اور سائنس صفحہ ۳۴۳)میں لکھا ہے کہ کھودائی کے دوران بہت سی پرانی تلخیاں ملیں ہیں جن میں لکھا ہواہے کہ طوفان نوح آیاتھا اور چند مومنین کے علاوہ تمام انسان ھلاک ہوگئے تھے، بعض تختی پریہ لکھا ہواہے کہ کشتی نوح بہتی ہوئی جبل نصیر پر جاکر لگی، جبل نصیر کے ایک حصے کانام ’’ جودی ‘‘ ہے یہ پہاڑ