سورج اور آسمان کی تخلیق ہوئی، سائنسی نظریے کے مطابق ان چیزوں کو بنتے بنتے اور زمین کے قابل رہائش ہوتے ہوتے پندرہ ارب سال لگ گئے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں چودہ سو سال پہلے اعلان کردیا تھا کہ میں نے زمین وآسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے ارشاد ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰواتِ وَالاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ (سورۃ ق ۵۰ آیت ۳۸) ترجمہ: زمین، آسمان اور جوکچھ دونوں کے درمیان میں ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور مجھے ذرا سا تھکن نے بھی نہیں چھوا۔
انسانی محاورے میں زمین ایک مرتبہ سورج کے سامنے سے چوبیس گھنٹے میں گھوم جائے اس کو ایک دن کہتے ہیں لیکن اس وقت تو زمین اور سورج تھے ہی نہیں اور نہ سورج کے سامنے سورج کی گردش تھی اس لئے یہ چوبیس گھنٹے کا ایک دن تو مراد لے ہی نہیں سکتے اس لئے لازمی طور پر زمانہ دراز مراد لینا ہوگا، خود قرآن نے پچاس ہزار سال کو ایک دن کہا ہے ارشاد ہے۔ تَعْرُجُ الْمَلٰکَۃُ وَالرُّحُ اِلِیْہ فِیْ یَوْمِ کَانَ مِقْدَارُہ خًمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (المعارج ۷۰ آیت ۴ ترجمہ: فرشتے اور روحیں ان کے پاس چڑھ کر جائنگے ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک دن کی مقدار ہمارے پچاس ہزار سال کی ہوسکتی ہے اس لئے یہ ممکن ہے (راقم السطور کو اس پر اصرار نہیں ہے) کہ قرآن کریم کے چھ یوم سے زمانہ دراز مراد لیاجائے۔
جونظریہ قرآن کریم پیش کررہا ہے کہ زمین اور آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے سائنسی تحقیق بھی ٹھیک اسی نظرئے کی تائید کررہی ہے کہ زمین کو قابل رہائش بنتے بنتے پندرہ ارب سال لگ گئے ہیں ۔
یہ کائنات دھواں تھی
ماقبل میں اہل سائنس کا نظریہ گذرا کہ زمین وآسمان کی تخلیق گیس سے ہوئی، گیس ہی زمانہ دراز میں جم کر کچرا، برف وغیرہ بنی اور بعد میں یہی چیزیں پتھر، نیکل، لوہا اور مٹی وغیرہ بنیں ۔ اگر اس نظریے کو صحیح مان لیا جائے تو قرآن پاک کے اس ارشاد کے عین مطابق ہے ثم استوی الی السماء وھی دخان (حم السجدہ ۴۱ آیت ۱۱) ترجمہ: پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ کی اس حال میں کہ وہ دھواں تھا پھر اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے آو یا زبردستی، دونوں بولے