ہیں ، وہ وزن کیسے کئے جائیں گے، اس لئے کہ ڈاکٹر اب دل کی دھڑکنوں کو ناپتے ہیں فضاء میں پھیلے ہوئے رو، کرنٹ اور مقناطیس کو لوگ ناپ رہے ہیں اور ان کو گرفت میں لے کر کام میں لارہے ہیں تو خالق کائنات اعمال اور آواز کو کیوں نہیں ناپیں گے فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَاہ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّاًیَّرَاہ (سورۃ الزلزال ۹۹ آیت ۷۔ ۸) ترجمہ: جوذرہ برابر عمل خیر کرے گا اس کو (قیامت میں ) دیکھے گا اور جو ذرہ برابر عمل شر کرے گا اس کو (قیامت میں ) دیکھے گا۔
ہزار میل دور سے حضرت عمرؓ کی آواز سن سکتے ہیں
حضرت عمرؓ خطبہ دے رہے تھے اور ایک ہزار میل دوری پر حضرت ساریہؓ کسی پہاڑ کے پاس جنگ لڑرہے تھے، پہاڑ کے پیچھے سے دشمن حملہ کرنے کی تیاری کرہے تھے، انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے اس منظر کو دیکھ لیا اور خطبہ کے دوران ہی فرمایا یا ساریہ الجبل ترجمہ: ساریہ پہاڑ کی طرف توجہ کریں ، ساریہ ؓ نے اس آواز کو سنا اور پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور دشمن کا دفعیہ کیا اور جنگ میں کامیاب ہوگئے۔
فلسفہ قدیم اس کرامت پر دواعتراض کرتے تھے، ایک یہ کہ ایک ہزار میل کی دوری سے حضرت عمرؓ نے فوج کی حرکت کوکیسے دیکھا اور دوسرا یہ کہ ساریہؓ نے ایک ہزار میل کی دوری سے آواز کو کیسے سنا؟ اتنی دوری سے دیکھنا اور سننا ممکن نہیں ۔
انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے ٹیلیویژن ایجاد کیا، ٹیلی ویژن مشین اور لوہے کا مجموعہ ہے یہ ہزاروں میل دوری پر لگے ہوئے ٹیلیویژن اسٹیشن کے عمل کو خود دیکھتا بھی ہے اور دوسروں کو دیکھتا بھی ہے، ایک مشین اگر ہزاروں میل دوری کی آواز کو سنتی ہو اور اس کے عمل کو دیکھتی ہو تواگر اللہ تعالی حضرت عمرؓ کو اتنی دوری سے آواز سنادے اور عمل کو دکھلادے تو اس میں کیا بعد ہو، آج سائنس تصدیق کرتی ہے کہ ہزاروں میل دوری سے آواز سنی جاسکتی ہے اور عمل دیکھا جاسکتا ہے۔
سائنس کہتی ہے کہ معراج رسولؐ عین ممکن ہے
حضور اکرم ﷺ کی معراج پر فلسفہ قدیم نے بہت اعتراض کیا وہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ممکن