نہیں ہے کہ یہ تحقیق بالکل صحیح ہے اور اس سے سرموبرابر انحراف کرنا جائز نہیں ہے بل کہ ہوسکتا ہے کہ سائنس اور آگے بڑھے تو انکانظریہ اور تحقیق تبدیل وجائے جس طرح پچھلے زمانے میں کتنی تحقیق تھیں جن پر فلسفہ قدیم کو اصرار تھا کہ تحقیقات حتمی ہیں لیکن بعد کے انکشافات سے وہ تحقیقیں بدل گئیں اور لوگ دوسری رائیں ان کے بارے میں قائم کرنے لگے اس لئے مجھے سائنسی تحقیق کٍ سلسلے میں بھی بہت زیادہ اصرار نہیں ہے کہ یہ مکمل صحیح ہے۔
آیتوں کا جو مفہوم اس کتاب میں پیش کیا ہے مجھے اس پر اصرار نہیں ہے کہ میں نے جو کچھ سمجھا ہے وہی صحیح ہے اور خداوند قدوس کا اس آیت سے سو فی صد یہی مطلب ہے، انبیاء کے بعد نہ کوئی اس کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ میرے بس کی بات ہے۔ میں نے تو الفاظ قرآن کی وسعت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سائنسی تحقیقات کو پیش کی ہے اور ناظرین کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر آیت کا یہ مفہوم ہے اور سائنسی تحقیق سوفی صد صحیح ہے تو دیکھئے کہ آیت میں اس تحقیق کا اشارہ پہلے سے موجود ہے، لیکن اگر عنداللہ آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے یا سائنس کی تحقیق صحت سے خالی ہے تو یہ بات میری جانب سے اور شیطان کی جانب سے ہے میں اس کا باربار معذرت خواہ ہوں ۔
ناظرین کو جہاں بھی میری غلطی نظر آئے ناچیز کو فوراً مطلع فرمائیں ان شاء اللہ شکریہ کے ساتھ قبول کروں گا۔ خاص طور پر آیت کی تفسیر کا معاملہ انتہائی نازک ہے اس لئے مجھے کچھ زیادہ ہی ڈرلگ رہا ہے کہ کہیں غلطی کی وجہ سے قیامت میں قابل گرفت نہ ہوجاؤں اس لئے غلطی پر متنبہ کرنے کی خاص گزارش ہے۔
یورپ کے انگریز آج بھی اپنے لوگوں کو یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم نعوذ باللہ محمد ؐ کی اپنی تصنیف ہے اور اس میں توریت اور انجیل سے استفادہ کیا ہے۔ نئی تحقیقات پیش کرکے میں نے اُن لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر قرآن کریم محمد ؐ کی تصنیف ہوتی تو اس میں ایسے حقائق کیسے آجاتے جن کا انکشاف اس زمانے میں نہیں ہوا تھا بل کہ اس زمانے کے لوگ اس کے برخلاف دوسرے نظریے پر قائم تھے اس میں چودہ سو سال بعد کے حقائق کیسے آسکتے تھے ؟ ہاں یہ خالق کائنات کی کتاب ہے وہ جانتے تھے کہ کس چیز کی حقیقت کیا ہے اس لئے جو جملہ یا لفظ قرآن میں آیا وہ بالکل وہی آیا جو حقیقت میں تھا اور آج تک اس کے سر موبر خلاف نہ ہوسکا۔
اس کتاب کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ناظرین کو آج کی نئی تحقیقات سے روشناس کرایا جائے