علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
حق بات پیش کرنے سے شرماؤں گا نہیں اور نہ ڈروں گا، چاہے مولوی بھی ناراض ہو جائیں۔ میں کہتا ہوں کہ عالم کے معنیٰ ہیں جو اﷲ کو جانتا ہو اور باعمل ہو، اس کے دل میں اﷲ کی خشیت ہو اور اس کے نفس کا تزکیہ ہوچکا ہو یعنی اخلاقِ رذیلہ سے پاک ہوگیاہو، ورنہ علم کا عطر تو تیرہ سال میں حاصل کیا مگر دل کی شیشی صاف نہیں کی۔ اگر آپ کو دس ہزار روپے تولے والا خالص عود کا عطر لینا ہے، تو آپ کس شیشی میں لیتے ہیں؟ جس شیشی میں کتے بلی کا گُو لگا ہوا ہو اس میں آپ عطر لیں گے؟ اسی طرح تیرہ سال میں جو قرآن وحدیث کا عطر حاصل کرتے ہیں، ان پر اپنے قلب کی شیشی کا تزکیہ بھی فرض ہے، اگر تزکیہ نہیں ہوتا تو پھر یہ علم روپیوں سے، جاہ سے، عزت سے، مال سے، ذرا ذرا سی بات سے بک جاتا ہے۔ جب تزکیہ نہیں ہوتا تو دل میں دردِ محبت بھی نہیں ہوتا، بیان میں مزہ اور تاثیر نہیں ہوتی، لہٰذا علماء کی عظمت کے باوجود بعض میں جو کمی ہے وہ بھی عرض کردیتا ہوں کہ اگر یہ اپنے قلب کی شیشی کی دھلائی کرلیں، اور تزکیہ کرالیں تو پھر ان کے عطر کی خوشبو اُڑے گی،کیوں کہ ماشاء اﷲ ان کے پاس قرآن و حدیث کا عطر تو ہے ہی، بس قلب کی شیشی صاف کروانے کی ضرورت ہے۔ جب علماء اہل اﷲ و مشایخ سے تعلق قائم کرتے ہیں اور اپنا ہاتھ کسی اﷲ والے کے ہاتھ میں تزکیہ کے لیے دے دیتے ہیں اور وہ مشایخ دیکھتے ہیں کہ اس عالم کے دل میں کچھ بڑائی آگئی ہے، تو اس سے مجاہدہ کراتے ہیں تاکہ ان کے نفس سے تکبر نکل جائے، علم کا احساس نکل جائے، علم کا نشہ اُتر جائے اور عوام کو یہ حقیر نہ سمجھیں۔ چناں چہ ہمارے تمام بزرگانِ دین اور بڑے بڑے علماء نے بزرگوں کی جوتیاں اٹھائیں اور نفس کا تزکیہ کرایا، اسی لیے ان کا سارے عالَم میں ڈنکا پٹ گیا، ان کے علم کی خوشبو سارے عالَم میں پھیل گئی۔ اکابر کا فنائے نفس نفس و شیطان سے بچنا آسان نہیں ہے۔ شیخِ کامل کے بغیر کسی کی اصلاح نہیں ہوسکتی ورنہ مولانا تھانوی، مولانا گنگوہی اور مولاناقاسم نانوتوی جیسے علماء ایک غیر عالم حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ سے کیوں اِصلاح لیتے؟ خواہ کتنا ہی قابل ہو،لیکن رَأْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ بیمار کی رائے بیمارہوتی ہے۔ حکیم اجمل خاں بھی جب بیمار ہوتے تھے تو