علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
مقتدیوں کے ڈر کی وجہ سے عمامہ باندھ کر نماز پڑھائی۔ بعض مسجدوں میں مقتدی غالب ہیں، جہالت کا غلبہ ہے، امام بےچارے کے ناک میں دم کیے ہوئے رہتے ہیں، لیکن کسی صحیح عالم امام سے رابطہ ہوجائے تو صحیح مسئلہ معلوم ہوجائے گا۔ تو اس مسجد میں یہ سلسلہ ماشاء اﷲ میری ایک ہی تقریر سے ختم ہوگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ عمامہ کبھی باندھو اور کبھی نہ باندھو تاکہ امت اس کو واجب نہ سمجھنے لگے۔ تو حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے اس شخص سے فرمایا کہ میں تفسیر بیان القرآن لکھتا ہوں اور اس وجہ سے مجھے بہت مطالعہ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے میرا دماغ گرم رہتا ہے، اس لیے مجھے عمامہ باندھنے کا تحمل نہیں ہوتا۔ پھر حضرت نے اس شخص سے ایک سوال کیا کہ تم مجھے اتنی تاکید سے عمامہ کے بارے میں کہتے ہو، تو میں تم سے کہتا ہوں کہ تم لنگی کیوں نہیں باندھتے ہو جبکہ لنگی بھی تو سنت ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ لنگی کھل جاتی ہے اور میں ننگا ہوجاتا ہوں۔ لنگی پہننا سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں لنگی باندھنے کو ضروری سمجھتے ہیں،حالاں کہ یہ سنتِ غیر مؤکدہ اور سنتِ عادیہ میں سے ہے، لیکن لنگی باندھنے میں احتیاط بھی بہت ہونی چاہیے۔ میں نے لنگی باندھنے والوں کو بھی دیکھا ہے، کیوں کہ بنگلہ دیش کے کچھ طلباء ہمارے ہاں پڑھتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے رات کومعاینہ کیا ،تو دیکھا کہ وہ خود کہیں تھے اور ان کی لنگی کہیں تھی۔ ایک عالم ہمارے ہاں استاد تھے اور دیوبند کے فاضل تھے، لنگی باندھتے تھے، ایک دفعہ جب مچھروں نے ان کے منہ پر کاٹا تو لُنگی سے اپنا منہ چھپا لیا، تو بتاؤ ایسی لنگی پہننا جائز ہے جو ستر کو دِکھائے؟ اسی لیے کہتا ہوں کہ دن کو لنگی پہنو اور رات کو پاجامہ پہنو تاکہ تمہارے اعضائے مستورہ نہ کھل جائیں، خصوصاً جبکہ دوسرے لوگ بھی ساتھ سو رہے ہوں مثلاً تبلیغی اجتماع ہو یا مدرسے میں طلبہ کا ہاسٹل (دارالاقامہ) ہو۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’جامعِ صغیر‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر اکیلے بھی رہو تو ننگے مت سوؤ، کیوں کہ اس سے فرشتوں کو حیا آتی ہے اور ان کو تکلیف ہوتی ہے اور کسی مسلمان کو اذیت پہنچانا حرام ہے تو فرشتوں کو اذیت اور تکلیف دینا تو اور حرام ہے۔