علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
وَالنَّجْمُ نَبَاتُ الَّذِیْ لَیْسَ لَہٗ سَاقٌ، وَالشَّجَرُ نَبَاتُ الَّذِیْ لَہٗ سَاقٌ یعنی وہ پودے جن کا تنا نہ ہو،اور شجر سے مراد وہ پودے ہیں جن پر تنا ہو، ساق ہو،پنڈلی ہو۔ساق معنیٰ پنڈلی ہیں یعنی تنے دار درخت اور بے تنا پودے دونوں اﷲ کو سجدہ کرتے ہیں۔ نباتات کے سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ اور یہاں سجدہ سے کیا مراد ہے؟ کوئی سائنس داں اعتراض کرسکتا ہے کہ ہمیں دکھاؤ کہ پودے اور درخت کہاں سجدہ کرتے ہیں؟ تو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ نے سجدہ کرنے کےمعنیٰ یہ بیان کیے ہیں: اَلْمُرَادُ بِسُجُوْدِ ھِمَا اِنْقِیَادُھُمَا لَہٗ تَعَالٰی 27؎یعنی سجدوں سے مراد ان کا اللہ کے احکام کا انقیاد و فرماں برداری ہے کہ سیب کا درخت سیب ہی پیدا کرے گا انگور نہیں پیدا کرسکتا، آم کے درخت سے کیلا نہیں پیدا ہو سکتا۔ جن درختوں کو اللہ نے جن مقاصد و ثمرات کے لیے پیدا کیا ہے وہ اسی کے لیے مسخّر ہیں، تو یہاں سجدہ سے مراد ان کا مسخر ہونا ہے، سجدہ سے مراد اطاعتِ کاملہ ہے۔ یہ تفسیر مفسرین نے لکھی ہے۔ اب جن کو ان کتابوں کامطالعہ نصیب نہیں اور وہ اردو کی چند کتابوں کا مطالعہ کرکے مفسربن جاتے ہیں، وہ ان اعلیٰ علوم کو کیا جانیں؟ جیسے ایک نالائق شخص کہتا تھا کہ لغت کی مدد سے ہر پروفیسر مفسر ہوسکتا ہے۔ بتائیے! کس قدر گمراہی کی بات ہے۔ یہ شخص لوگوں کو عظیم گمراہی میں مبتلا کر گیا۔ تو مفسرین نے یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ کا ترجمہ کیا ہے : اَیْ یُفَھِّمُھُمْ اَلْفَاظَ الْکِتَابِ وَیُبَیِّنُ لَھُمْ کَیْفِیَّۃَ اَدَائِہٖ یعنی پیغمبر علیہ السلام قرآنِ پاک کے الفاظ بھی سمجھاتے ہیں اور کیفیتِ ادا بھی سمجھاتے ہیں۔ اس سے بعثتِ نبوت کے مقاصد میں تجوید کے مدارس بھی شامل ہوگئے اور وہ مکتب بھی شامل ہوگئے جہاں قرآنِ پاک کی قرأ ت و الفاظ کی صحت کی ادائیگی سکھائی جاتی ہے اور دار العلوم _____________________________________________ 27؎روح المعانی:100/27،الرحمٰن(6)،دارإحیاء التراث، بیروت