علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
سکھایا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کو کھڑے ہوکر درود شریف پڑھنا پسند ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہ حکم دیتے کہ قیام کی حالت میں میرے نبی پر درود شریف پڑھو، لیکن اﷲ تعالیٰ نے بیٹھ کر درود شریف پڑھنا سکھایا، مگر آج کل اگر کھڑے ہوکر درود شریف نہ پڑھو تو گویا بہت بڑا جرم کرلیا،حالاں کہ یہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ زیادتی اور گستاخی ہے اور غیر ضروری کو ضروری سمجھنا ہے جو عظیم گمراہی ہے۔ اسی لیے دوستو! میں یہ کہتا رہتا ہوں کہ اﷲ کی محبت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر چلو اور سرورِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت یہ ہے کہ سنت پر چلو۔ اصلی عشقِ رسول اتباعِ رسول ہے بہت سے لوگ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں،لیکن ان سے پوچھو کہ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟ کچھ معلوم نہیں۔ اور وضو کی کیا سنتیں ہیں؟ کچھ پتا نہیں،حالاں کہ سنت پر مرنا اور جینا ہمیں نصیب ہوجائے تو ہماری قسمت بن جائے گی۔ آپ بتائیے کہ ایک شخص اپنے باپ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور جب ابّا کہتا ہے کہ جاؤ بیٹا! دوا لے آؤ، میں بیمار ہوں، مجھے کھانسی آرہی ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ میں کام وام تو کچھ نہیں کروں گا، لیکن یا ابّا یاابّا کی رٹ لگاتا رہوں گا۔ تو باپ ایسے بیٹے کو کیا کہے گا کہ ابّا ابّا کی رٹ لگا رہے ہو لیکن ابّا کا کہنا نہیں مانتے ہو۔ ایسے ہی بعض لوگ کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام زور زور سے پڑھتے ہیں، لیکن جب حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت کا وقت آتا ہے تو دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے، زکوٰۃ نہیں دیتے، حج فرض ہوتا ہے نہیں کرتے، گناہوں سے نہیں بچتے۔ بس سال میں ایک بار میلاد پڑھ لیا اورسمجھتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کا حق ہم نے ادا کردیا۔ ایران کا ایک بڑا شاعر ایک دفعہ دہلی آیا، تو سارے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ اس نے ایک نعت لکھی تھی جس کا مضمون بڑا پیارا تھا، اس مضمون سے پتا لگتا تھا کہ اس سے بڑھ کر کوئی عاشقِ رسول (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) شاید دنیا میں نہ ہو۔ اس کی نعت سن کر ایک اﷲ والے بھی اس کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے دیکھا کہ وہ شاعر ایک حجام کے پاس بیٹھ کر داڑھی مُنڈا رہا ہے۔ عشق کا مدار زبان پر نہیں بلکہ عمل پر ہے۔ تو انہوں نے پوچھا کہ آغا ریش می تراشی؟ اے آغا! یہ کیا کر رہے ہو؟ آپ نے اتنی عمدہ نعت پڑھی اور اب داڑھی منڈارہے