Deobandi Books

علم اور علماء کرام کی عظمت

ہم نوٹ :

45 - 82
 اَلطَّھَارَۃُ الْکَامِلَۃُ طَھَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ29؎
طہارتِ کاملہ سے مراد یہ ہے کہ قلب غیر اللہ سے پاک ہوجائے۔ 
لہٰذا طَرِیْقُ السُّنَّۃْ سنت کا راستہ، سنت کی دعائیں،یہ سب حکمت پر مبنی ہیں جیسے بیت الخلاء سے نکلنے کی دعا:
غُفْرَانَکَ ، اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَ عَافَانِیْ30؎
میں غُفْرَانَکْ  کیوں ہے؟ پیغمبربھی استنجا کرتا ہے، ولی اللہ بھی استنجا کرتا ہے، لیکن بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد نبی بھی غُفْرَانَکْ پڑھتا ہے اور ولی بھی پڑھتا ہے، تو معافی کس چیز کی مانگتا ہے؟ جبکہ بیت الخلاء جانا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ معافی اِس چیز کی ہے کہ اتنی دیر تک ہماری زبان ذکر اللہ سے محروم تھی، اگرچہ ہم معذور تھے، مگر عشق کی شان یہ ہے کہ جہاں معذور ہو وہاں بھی معافی مانگ لے؎
ممنونِ سزا  ہوں  میری  ناکردہ  خطائیں
نماز کے بعد سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تین بار اَسْتَغْفِرُ اللہْ پڑھتے تھے، تو کیا نماز کوئی گناہ ہے؟ پھر استغفار کیوں فرمایا؟ اس کی شرح مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے کہ نماز میں جو کوتاہیاں ہوگئیں یہ استغفار ان کی معافی ہے کہ اے اللہ! مجھ سے آپ کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوا۔ اسی لیے مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! ہم سے آپ کی شان کے مطابق نماز ادا نہیں ہوسکی، لیکن آپ اس کی قبولیت اپنے شایانِ شان فرما دیجیے۔ 
 حکمت کی چوتھی تفسیر ہے:
مَا تُکْمَلُ بِہِ النُّفُوْسُ مِنَ الْمَعَارِفِ وَالْاَحْکَامِ 
یعنی وہ پیغمبر احکام و معارف بیان کرے جس سے نفوسِ انسانیت کی تکمیل ہو، جس سے انسان کامل ہوجائے۔ اور حکمت کی پانچویں تفسیر ہے:
_____________________________________________
29؎      روح المعانی :11 /26،التوبۃ(108)،دارإحیاء التراث، بیروت
30؎  سنن ابن ماجۃ:26،باب ما یقول اذا خرج من الخلاء،المکتبۃ الرحمانیۃ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرضِ مرتب 8 1
3 شیخ بنانا کیوں ضروری ہے؟ 9 1
4 علماء کے سامنے دعوائےعلم بے ادبی ہے 11 1
5 عمامہ کے متعلق ایک غلط فہمی کا اِزالہ 12 1
6 لنگی پہننا سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے 13 1
7 غیر ضروری کو ضروری سمجھنا گمراہی ہے 14 1
8 اصلی عشقِ رسول اتباعِ رسول ہے 15 1
9 حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا واقعہ 16 1
10 حضرت آسیہ کا ایمان 17 1
11 نااہل سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے 18 1
12 حضرت آسیہ کے لیے ایک عظیم الشان نعمت 19 1
13 اﷲ پر فدا ہونے کا انعام 19 1
14 اﷲ کے نام کی لذت 21 1
15 اہلِ علم کو اہلِ ذکر سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ 23 1
16 حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کو سات نصیحتیں 23 1
17 صحابہ کرام کی دین کی حرص 24 1
18 علماء پر تنقید نادانی و بدفہمی ہے 25 1
19 اسلام کا پیغام سارے عالَم میں پہنچ چکا ہے 26 1
20 کافروں کو مسلمان کرنا فرض نہیں ہے 27 1
21 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی تعداد 29 1
22 علماء کی تحقیر حرام ہے 30 1
23 اہانتِ علم و علماء کفر ہے 32 1
24 اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ 33 1
25 اہلِ علم کا بلند درجہ 34 1
26 علماء فرض کام میں لگے ہوئے ہیں 34 1
27 ہر مسلمان پر دعوت الی اللہ فرض نہیں 36 1
28 حضرت یوسف علیہ السلام کی دعائے حسنِ خاتمہ 38 1
29 دعوت الی اللہ کے لیے صلاحیت بھی شرط ہے 39 1
30 اپنی نظر میں حقیر ہونا مطلوب ہے 40 1
31 قرآنِ پاک کی رُو سے نبیوں والے کام 41 1
32 قرآن کا ترجمہ محض لغت سے کرنا عظیم گمراہی ہے 41 1
33 نباتات کے سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ 43 1
34 حکمت کی تعریف 44 1
35 ممنونِ سزا ہوں میری ناکردہ خطائیں 45 1
36 تزکیۂ نفس کے مدرسے کہاں ہیں؟ 47 1
37 تزکیۂ نفس کی مثال 49 1
38 تزکیۂ نفس کی تعریف 50 1
39 شیخِ کامل کے بغیر اصلاح نہیں ہوتی 52 1
40 جعلی پیروں کی جہالت 53 1
41 جس کا کوئی پیر نہ ہو اسے پیر نہ بنائیں 53 1
42 حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا توکّل 55 1
43 اپنی اور اہل و عیال کے دین کی فکر مقدم ہے 55 1
44 دین کے کام میں حدودِ شریعت کا لحاظ ضروری ہے 57 1
45 تبلیغی جماعت نافع ہے، کافی نہیں 62 1
46 تزکیۂ نفس علماء پر بھی فرض ہے 62 1
47 اکابر کا فنائے نفس 64 1
48 دین کے شعبے آپس میں رفیق ہیں، فریق نہیں 66 1
49 تبلیغی جماعت کا عظیم الشان فائدہ 67 1
50 تبلیغ کے مسائل بتانا تبلیغ کا انکار نہیں ہے 67 1
51 تبلیغی جماعت بہترین جماعت ہے 68 1
52 مبارک اور بے مثال جماعت 69 1
53 علماء کا اِکرام نجات کا سرمایہ ہے 70 1
54 کثرتِ ضحک کی شرح 71 1
55 ہنسنے میں بھی دل اﷲ سے غافل نہ ہو 73 1
56 حق بات کہنے کا سلیقہ 74 1
57 راہِ حق میں طعن و ملامت سے نہ ڈریں 75 1
58 اپنے عیوب کا استحضار رکھیں 76 1
59 اﷲ والے کی نافرمانی کی سزا 76 1
60 اہلِ علم کی فضیلت 78 1
61 بزرگوں کی دعاؤں کا اثر 78 1
Flag Counter