علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
اَلطَّھَارَۃُ الْکَامِلَۃُ طَھَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ 29؎طہارتِ کاملہ سے مراد یہ ہے کہ قلب غیر اللہ سے پاک ہوجائے۔ لہٰذا طَرِیْقُ السُّنَّۃْ سنت کا راستہ، سنت کی دعائیں،یہ سب حکمت پر مبنی ہیں جیسے بیت الخلاء سے نکلنے کی دعا: غُفْرَانَکَ ، اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَ عَافَانِیْ 30؎میں غُفْرَانَکْ کیوں ہے؟ پیغمبربھی استنجا کرتا ہے، ولی اللہ بھی استنجا کرتا ہے، لیکن بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد نبی بھی غُفْرَانَکْ پڑھتا ہے اور ولی بھی پڑھتا ہے، تو معافی کس چیز کی مانگتا ہے؟ جبکہ بیت الخلاء جانا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ معافی اِس چیز کی ہے کہ اتنی دیر تک ہماری زبان ذکر اللہ سے محروم تھی، اگرچہ ہم معذور تھے، مگر عشق کی شان یہ ہے کہ جہاں معذور ہو وہاں بھی معافی مانگ لے ؎ممنونِ سزا ہوں میری ناکردہ خطائیں نماز کے بعد سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تین بار اَسْتَغْفِرُ اللہْ پڑھتے تھے، تو کیا نماز کوئی گناہ ہے؟ پھر استغفار کیوں فرمایا؟ اس کی شرح مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے کہ نماز میں جو کوتاہیاں ہوگئیں یہ استغفار ان کی معافی ہے کہ اے اللہ! مجھ سے آپ کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوا۔ اسی لیے مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! ہم سے آپ کی شان کے مطابق نماز ادا نہیں ہوسکی، لیکن آپ اس کی قبولیت اپنے شایانِ شان فرما دیجیے۔ حکمت کی چوتھی تفسیر ہے: مَا تُکْمَلُ بِہِ النُّفُوْسُ مِنَ الْمَعَارِفِ وَالْاَحْکَامِ یعنی وہ پیغمبر احکام و معارف بیان کرے جس سے نفوسِ انسانیت کی تکمیل ہو، جس سے انسان کامل ہوجائے۔ اور حکمت کی پانچویں تفسیر ہے: _____________________________________________ 29؎روح المعانی :11 /26،التوبۃ(108)،دارإحیاء التراث، بیروت 30؎سنن ابن ماجۃ:26،باب ما یقول اذا خرج من الخلاء،المکتبۃ الرحمانیۃ