علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
مسئلے کے بارے میں اپنا ذاتی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ مسئلہ یوں ہے۔ اب تو ٹھیلے والا بھی کہتا ہے کہ میرے خیال میں یہ مسئلہ یوں ہے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ بھلا دین میں خیال بھی چلتا ہے؟ کیا دین کوئی خیالی چیز ہے؟ علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی فقہ کی کتاب شامی میں یہ فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بغیر تحقیق کے مسئلہ بتانے میں جری ہوتا ہے وہ جہنم میں جانے کے لیے جری ہوتا ہے۔ پہلے کتابوں میں دیکھو، اگر سمجھ میں نہ آئے تو اپنے اساتذہ، مستند علماء سے پوچھو اور ان کے پاس سائل بن کر جاؤ، کوئی اعتراض نہ کرو، باادب انداز میں کہو کہ حضرت میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، شاگرد کی طرح پوچھو۔ امت کے لیے ضروری ہے کہ علماء سے شاگردانہ طریقے سے پوچھے۔ عمامہ کے متعلق ایک غلط فہمی کا اِزالہ ایک غیر عالم شخص نے حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے پوچھا کہ آپ عمامہ کیوں نہیں باندھتے؟ اگر عالم ہوتا تو ایسی بات نہ کرتا ،کیوں کہ عمامہ باندھنے سے متعلق یہ باتیں مشہور ہیں کہ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے اور جمعہ کے دن عمامہ باندھ کر جمعہ پڑھانے سے ستّر گنا زیادہ ثواب ملتا ہے، مگر محدثِ عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’’موضوعاتِ کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ذٰلِکَ کُلُّہٗ بَاطِلٌ مَوْضُوْعٌ یعنی یہ باطل اور گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ لہٰذا تھوڑے سے علم میں جو لوگ اُلجھ جاتے ہیں تو ان کو اس معاملے میں جرأت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ کتابوں سے اور بڑے علماء سے رجوع کریں۔ ان کے پاس دماغ تو ضرور ہے مگر دماغ میں گرمی ہے۔ جس زمانے میں لوگ کسی غیرواجب عمل کو واجب سمجھنے لگیں تو اس عمل کا ترک واجب ہوجاتا ہے۔ میں نے بڑے بڑے علماء و مشایخ کو خود کہتے ہوئے سنا ہے کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ صحابہ نے ٹوپی سے بھی نمازیں پڑھی ہیں۔ اگر عمامہ باندھ لیا جائے تو اچھا ہے، لیکن اس کو واجب سمجھ لینا جائز نہیں۔ میں ایک دفعہ ڈھاکہ گیا تو دیکھا کہ مسجد میں منبر پر ایک عمامہ رکھا ہوا ہے، اس پر بے شمارمکھیاں بیٹھی ہوئی تھیں اور بہت سارے داغ تھے، اتنے میں امام نماز پڑھانے آیا، اس نے وہ عمامہ باندھا اور نماز پڑھائی، نماز پڑھا کر عمامہ واپس منبر پر رکھ کر چلے گئے۔محض