علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
فرعون کی زبانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغام سن کر حضرت آسیہ علیہا السلام نے جواب دیا کہ تجھ جیسے ظالم اور خدائی کا دعویٰ کرنے والے کو خدائے کریم یاد فرما رہے ہیں۔ ارے ظالم! خوشی کے مارے تیرا پِتَّہ کیوں نہیں پھٹ گیا؟یہ معمولی کرم نہیں ہے کہ تجھ جیسے ظالم اور سرکش کو مولائے کریم یاد فرما رہا ہے۔میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اے فرعون! تو مشورہ نہ کر، جلدی سے کلمہ پڑھ لے، تجھے تو اسی مجلس میں خوشی خوشی اس دعوت کو قبول کرلینا چاہیے تھا، مجھے تعجب ہے کہ تو خوشی کے مارے مر کیوں نہیں گیا کیوں کہ گنجے کے عیب کو تو ایک ٹوپی چھپا لیتی ہے، لیکن تیرے عیبوں کو تو اﷲ کی رحمت چھپانا چاہتی ہے اور بار بار اﷲ اﷲ کہنے لگیں اور زار و قطار رونے لگیں۔ نااہل سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے اس کے بعد فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کیا کہ میری بیوی جو کہہ رہی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ اے ہامان! میں زمین کے معاملات میں تجھ سے مشورہ لیتا رہتا ہوں، لہٰذا آسمان کے معاملے میں بھی میں تجھ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں، لیکن یہ کمبخت اگر آسمانی ہوتا تو اس کا مشورہ صحیح ہوتا ،یہ تو زمین کا کیڑا تھا۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس پرندے کو اﷲ آسمانی بناتا ہے تو اس کا منہ اوپر کی طرف رہتا ہے، اگرچہ ابھی اس کے پر بھی نہ نکلے ہوں۔ چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو،لیکن پھر بھی اس کا منہ آسمان کی طرف ہوتا ہے، کیوں کہ اس کو مستقبل میں اُڑنا ہے اور آسمانی بننا ہے، چناں چہ کبوتر کا بے بال و پر کا بچہ آسمان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور اپنے بازوؤں کو ہلاتا رہتا ہے، کیوں کہ مستقبل میں اُس کو اُڑنا ہے اور گائے بیل کے بچے ہمیشہ نیچے کی طرف دیکھتے ہیں،کیوں کہ ان کو اُڑنانہیں ہے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے کو اﷲ والا بنانے کا ارادہ فرماتے ہیں، تو اس کو ہر وقت آسمان اور زمین میں غوروفکر کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں کہ ہمارا خالق کون ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ہمچو فرخے میلِ او سوئے سما منتظر بنہادہ دیدہ بر ہوا