علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
کی محنت رائیگاں نہ ہو۔ ان کی محنتوں پر آج اختر نے یہ محنت کی ہے، تاکہ ان کی محنتیں رائیگاں نہ جائیں اور اخلاص کی برکت سے قبول ہوجائیں۔ تکبر، ریا اور دِکھاوے سے ضایع نہ ہوجائیں، میرے اس سارے بیان کا یہی مقصد ہے۔ میرے احباب میں جو لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں میں خود اُنہیں تبلیغ میں جانے کی اجازت دیتا ہوں۔ جو لوگ تبلیغ میں لگے ہیں ان میں بہت سے میرے خلیفہ بھی ہیں، میں نے بخل نہیں کیا کہ تبلیغ والے کو کیوں خلافت دوں؟ وہ جب چلّہ لگانے جاتے ہیں تو پوچھ کر جاتے ہیں پھر آکر مجھ سے ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے جہاں جہاں آپ کی باتیں نقل کیں، تو اگرچہ بعض نادانوں نے اعتراض بھی کیاکہ چھ نمبر سے آگے کیوں جارہے ہو، لیکن جو لوگ سمجھدار تھے انہوں نے کہا کہ آہ! آج تم نے کیسی پیاری باتیں سنائیں جس سے ہماری آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ یہ ہمارے بزرگوں کی، تمام اولیاء اﷲ کی ٹکسالی باتیں ہیں، کھرا سونا ہے، جہاں چاہو پیش کرو۔ علماء کا اِکرام نجات کا سرمایہ ہے یہ باتیں اِس لیے عرض کر دِیں تاکہ ہمارے دلوں میں اپنے مشایخ ، بزرگانِ دین، علمائے کرام کی عظمت جو ہماری نجات کا سرمایہ ہے وہ قائم رہے۔ سن لو! میں اپنے بزرگوں کی محبت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں اور یہ میرا ہی قول نہیں، بلکہ تبلیغی جماعت کے ایک بہت بڑے شخص مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دعاجُو رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد ہے جن کی قبر ٹنڈو آدم میں ہے۔ جب ان کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے مفتی رشید احمد صاحب کو بلایا اور مفتی صاحب نے یہ مجھ سے خود بیان فرمایا کہ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے مرتے وقت یہ فرمایا کہ اے مفتی رشید احمد! تم گواہ رہنا کہ عبدالعزیز دہلوی مر رہا ہے مولانا گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی کے مسلک پر۔ شاہ صاحب تبلیغی جماعت کے آدمی تھے، ساری زندگی انہوں نے تبلیغ میں لگائی، لیکن مسلک کے اعتبار سے اپنے بزرگوں کی محبت اور تعلق کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس لیے میں نے یہ باتیں یادکرادیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعضے اناڑی اور کم سمجھ لوگوں کی باتوں میں آکر کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہمارے جن علماء کے ہاتھوں پر کوئی جاپانی مسلمان نہیں ہوا وہ کنڈم ہیں۔