علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
اچھوں کی ہے جو علماء کا اِکرام کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ اﷲ تعالیٰ نے علماء کو بڑا درجہ دیا ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ ان کی قدر کرو، لیکن جس کے قلب میں علماء کی عظمت نہ ہو تو مجھے صدمہ ہوتا ہے۔ پس عوام جب بستر لے کر دین کے لیے جاتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے، ہم خود ترغیب دیتے ہیں اور ہم اجتماعات میں بھی بلائے جاتے ہیں، ہماری تقریریں بھی ہوتی ہیں، لیکن جب کہیں ایسی بات سنتا ہوں جس میں علماء ، مشایخ اور بزرگانِ دین کی بے وقعتی ہو تو مجھ سے یہ بات برداشت نہیں ہوتی،کیوں کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے پہلے شاہ ولی اﷲ صاحب محدثِ دہلوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، عبداﷲابن مبارک، امام ابو حنیفہ ، امام احمد ابنِ حنبل، امام شافعی، خواجہ حسن بصری رحمہم اﷲ وغیرہ یہ سب حضرات تو بستر لے کر نہیں نکلے، پھر اس قسم کی بات کرنا کہ جو چلّہ نہیں لگاتا اس کے جنت میں جانے کی گویا کوئی ضمانت نہیں یا ایسی تقریر کرنا جس سے علمائے کرام کی عوام کے دل میں وقعت کم ہوجائے حرام ہے۔ سنو فتویٰ اس فقیر کا کہ ایسا عنوان اختیار کرنا اور کسی عمل یا کسی نوع کی خدمت کی فضیلت اس طرح بیان کرنا جس سے علماء و مشایخ اور اہل اﷲ کی عظمتوں میں کمی آجائے اور لوگ کہنے لگیں کہ ہمارے علماء و مشایخ تو کچھ نہیں کرتے، حجروں میں پڑے ہیں، مدرسوں میں پنکھوں کے نیچے بیٹھے ہیں، اس قسم کے بیانوں کے حرام ہونے کا فتویٰ احقر دیتا ہے، اس لیے کہ حدیثِ قدسی میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ 15؎جو میرے اولیاء کی حقارت اور ان کے ساتھ دشمنی کرے تومیرا اس سے اعلانِ جنگ ہے۔ کیا یہ معمولی دشمنی ہے کہ امت کو اہل اﷲ سے ، علماء سے بد ظن کردیا جائے اور صرف چند چلّے لگانے سے غیر علماء کو علماء کے برابر کردیا جائے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے دل کے مریضوں کو _____________________________________________ 15؎صحیح البخاری:963/2(6541) باب التواضع،المکتبۃ المظہریۃ