علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
علم اور علماء کرام کی عظمت نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ شیخ بنانا کیوں ضروری ہے؟ اس وقت میرا دو روحانی بیماریوں یعنی غصہ اور بدنظری کے سلسلے میں کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ حسنِ بیان اور اپنی نصرتِ خاص نصیب فرمائیں اور سننے والوں اور سنانے والے کو اِخلاص نصیب فرمائیں۔ اور اِخلاص سے سننا کیا ہے؟ کہ عمل کی نیت سے سنے، خالی واہ واہ کے لیے نہیں، اور سنانے والا بھی واہ واہ کا طالب نہ ہو بلکہ آہ آہ کا طالب ہو۔ واہ سے کام نہیں بنے گا، آہ سے کام بنے گا۔ اسی لیے حکیم الامت مجدد الملّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنا تخلص ہی آہ رکھا تھا۔ حضرت کا ایک شعر ہے ؎تمہاری کیا حقیقت تھی میاں آہ ؔ یہ سب امداد کے لطف و کرم تھے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے تمام علمی و عملی کمالات کی نسبت اپنے شیخ حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف کی۔ مطلب یہ کہ مجددِ زمانہ، ڈیڑھ ہزار کتابوں کے مصنف، بڑے بڑے علماء کے شیخ نے اپنی نفی کرکے اپنے کمالات کو اپنے شیخ کی طرف منسوب کیا۔ یہی چیز انسان کو عُجب و کبر سے اور اپنے کو بڑا سمجھنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور جس کا شیخ نہ ہو تو پھر وہ اپنی طرف نسبت کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا، اور جہاں ’’میں میں‘‘ ہو وہیں انسان ذلیل ہوجاتا ہے۔یہی ’’میں‘‘ والی بیماری شیطان کو تھی جس نے اَنَا کہا تھا۔ اسی انانیت کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے علماء نے بھی اﷲ والوں کو اپنا شیخ بنایا اور تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے علماء جو علم کے آفتاب اور ماہتاب تھے، ان حضرات نے بھی اپنے نفس کو