علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
دوسرے حکیم سے علاج کرواتے تھے، لہٰذا یہ اکابر علماء علم و فضل کے باوجود اپنے نفس کی اصلاح کے لیے حاجی صاحب کے پاس گئے اور ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔ چناں چہ حاجی صاحب نے تھانہ بھون میں ایک بار مولانا گنگوہی کے ہاتھ پر روٹی رکھ دی اور روٹی پر آلو کی بھجیا رکھ دی اور فرمایا: کھایئے! مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب گوشۂ چشم سے مجھے دیکھ بھی رہے تھے کہ کہیں اس کو تغیر تو نہیں ہے کہ شیخ نے میری کیا بےوقعتی کی۔ مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ اس وقت میری روح مست ہورہی تھی کہ کہاں یہ میری قسمت کہ شیخ اس طرح میرے نفس کو مٹائے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ایک عالم مفتی بھی تھے، واعِظ بھی تھے اور محدث بھی تھے، اصلاح کے لیے اپنے شیخ کے پاس گئے۔ شیخ نے ان سے کہا کہ آپ کوتین کام چھوڑنے پڑیں گے: آپ نہ فتویٰ دیں گے، نہ حدیث پڑھائیں گے، نہ وعظ کہیں گے۔ سال بھر خانقاہ میں رہیے اور اللہ اللہ کیجیے،اور سال کی بھی قید نہیں ہے، جب تک میں اجازت نہ دوں آپ دین کا، دعوت الی اللہ کا کوئی کام نہیں کریں گے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ کی شرح میں لکھا ہے کہ اُس زمانے کے بعض خشک اہلِ فتاویٰ نے اس شیخ کے کافر ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ ملّا علی قاری محدثِ عظیم اور اپنی صدی کے مجدّد تھے، وہ لکھتے ہیں کہ سال بھر کے بعد جب شیخ نے محسوس کیا کہ اِن کا نفس مٹ گیا ہے، اب یہ جو وعظ کہیں گے اللہ کے لیے کہیں گے، جو تصنیف وتالیف کریں گے اللہ کے لیے کریں گے، اب اِن میں اِخلاص پیدا ہوگیا ہے تو اُنہیں حدیث پڑھانے کی بھی اجازت دے دی، فتاویٰ دینے کی بھی اجازت دے دی اور وعظ کہنے کی بھی اجازت دے دی تو وہ جو دس سال سے بیان کررہے تھے اس میں کوئی اثر نہ تھا اور اجازت ملنے کے بعد جب انہوں نے پہلا بیان کیا تو ایسے درد بھرے دل سے کیا کہ جتنے سامعین تھے سب اُسی وقت صاحبِ نسبت ہوگئے، ولی اللہ بن گئے۔ شیخ کی برکت سے ایک سال میں کیا سے کیا حالت ہوگئی ؎تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا