علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
ہم کررہے ہیں۔ اس لیے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بھئی! سب کچھ کرو مگر اکڑو مت اور کسی عالم کو تو کیا کسی مسلمان کو بھی حقیر مت سمجھو، یہاں تک کہ کسی کافر کو بھی حقیر سمجھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ غَمْطُ النَّاسْ میں کافر بھی شامل ہے، اس میں مؤمن کی قید نہیں ہے۔ اپنی نظر میں حقیر ہونا مطلوب ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ میں دنیا کے سارےمسلمانوں سے کمتر اور بدتر ہوں فی الحال اور ساری دنیاکے جانوروں اور کافروں سے بدتر ہوں فی المآل،کیوں کہ اگر انجام کے اعتبار سے نعوذ باﷲ! میرا خاتمہ کفر پر ہوگیا تو جانور اور سور، کتے سب مجھ سے اچھے ہیں، ہاں اگرمیرا خاتمہ ایمان پر ہوجائے تو بے شک پھر میں بہتر ہوں اور ابھی خاتمے کا پتا نہیں، لہٰذا ابھی اپنے کو کیسے بہتر سمجھوں؟ اس لیے دو جملے حضرت نے فرمائے کہ میں ساری دنیا کے مسلمانوں سے بدتر ہوں فی الحال،کیوں کہ اگرچہ کوئی مسلمان خواہ شرابی اور زانی ہو، لیکن ممکن ہے کہ اس کا کوئی نیک عمل قبول ہوجائے یا صرف ایمان کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی ساری بُرائیوں کو معاف کر دے اور ہماری تمام نیکیوں اور دینی کارناموں کے باوجود کوئی عمل ایسا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو کر ہماری تمام نیکیوں کو مٹا دے، اس لیے میں تمام مسلمانوں سے اپنے کو کمتر سمجھتا ہوں فی الحال اور کافروں سے اور جانوروں سے کمتر سمجھتا ہوں فی المآل، اور فرمایا کہ اگر کسی کا گناہ نظر آجائے تو اس کے عیب کو زکام سمجھو اور اپنے عیب کو سمجھو کہ کوڑھ ہے، کبھی کسی کوڑھی کو زکامی پر ہنستے ہوئے نہیں پاؤ گے۔ حضرت کے اس ملفوظ کو میں نے نظم کردیا کہ ؎نامناسب ہے اے دلِ ناداں اِک زُکامی ہنسے جذامی پر اپنے گناہ کو پھانسی کا کیس سمجھے اور دوسرے کے گناہ کو میونسپلٹی کا چالان سمجھے کہ سو دو سو روپے دے کر چھوٹ جائے گا۔ تو اللہ والوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ اپنے عیوب کے سامنے دوسروں کے عیب نظر نہیں آتے۔ حضرت ابو ذر غِفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی کہ اے ابو ذر! تم اپنے عیوب کا اتنا مطالعہ کرو کہ