علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
کے مرتبے میں وہ اﷲ کے ساتھ ہے۔ اس مضمون کو اختر نے ایک اور شعر میں پیش کیا ہے ؎دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ با خدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جدا رہے حق بات کہنے کا سلیقہ پانچویں نصیحت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمائی: قُلِ الْحَقَّ وَاِنْ کَانَ مُرًّا حق بات کہو اگرچہ کڑوی ہو۔ لیکن دوستو! حق بات بھی اگر کہنا ہو تو اس کو بھی سلیقہ سے کہو، جیسے اگر کوئی اپنی ماں سے کہے کہ اے میرے ابا کی بیوی! ناشتہ لاؤ۔ تو ہے تو حق،مگرظالم نے حدیث کے مفہوم کو ضایع کردیا۔ دین ہمیں ادب کا درس دیتا ہے، بے ادبی نہیں سکھاتا۔ دیکھو! حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کے توڑنے کو اپنی طرف منسوب کیا، لیکن جب دو غلاموں کی دیوار کو سیدھا کیا تو اس کو اﷲ کی طرف منسوب کیا،حالاں کہ تینوں کام اﷲ کے حکم سے کیے تھے، لیکن جو عیب کی بات تھی اس کو اپنی طرف منسوب کیا فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا پس ارادہ کیا میں نے کہ کشتی کو عیب دار کروں، اور جب معاملہ دیوار سیدھی کرنے کا آیا تو اپنے رب کی طرف نسبت کی: فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ 42؎لہٰذا دوستو! حق بات بے شک کہو، ڈٹ کر کہو، مگر موقع محل دیکھ کر ادب اور سلیقہ سے کہو۔ جیسے شکاری جس چڑیا کا شکار کرنا چاہتا ہے تو اس کی بولی بھی سیکھتا ہے، ورنہ وہ بھاگ جائے گی۔ اگر شاعر آیا ہے تو دو تین شعر پڑھ کر اس کو اﷲ کے عشق میں پھنساؤ، اگر ڈاکٹر ہے تو اس کو تھوڑی سی ڈاکٹری بھی سناؤ، مثلاً اس سے کہو کہ فرانس کے ڈاکٹر پاگلوں کو مسواک کراتے ہیں جس سے گندہ مواد ان کے دماغ سے نکلتا ہے اور وہ ٹھیک ہورہے ہیں اور ہم اپنے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس مبارک سنت کو چھوڑے ہوئے ہیں،حالاں کہ مسواک سے نماز کا ثواب ستّر گنا بڑھ جاتا ہے _____________________________________________ 42؎الکھف:82