Deobandi Books

علم اور علماء کرام کی عظمت

ہم نوٹ :

49 - 82
اﷲ والوں کا دل دُکھایا کرتا تھا۔ تب سے میں نے یہ سبق حاصل کیا کہ میں اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب سے کسی کے بارے میں اچھی بات کہتا ہوں، شکایت نہیں کرتا اور یہ عینِ سنت ہےاوریہ مزاجِ نبوت ہے۔
سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر    سلیم الصدر رہوں، میرا سینہ صاف رہے، تاکہ سب کے ساتھ محبت سے ملوں، لہٰذا میں بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے کان میں کوئی شخص کسی کی شکایت کرے۔ کوئی بھلی بات کہہ کر میری محبت بڑھاؤ، میرے بھائیوں سے میری محبت کو بڑھاؤ، اپنے احباب کی تعریف سے میرا دل خوش ہوجاتا ہے۔ کمزوری کس میں نہیں ہے؟ جو شکایت کرتا ہے وہ خود کمزوریوں کا شکار ہے۔ بس دوسروں کا عیب اگر نظر آجائے تو آنکھیں بند کرلواور اﷲ سے دعا کرو۔
تزکیۂ نفس کی مثال
ہمارے شیخ شاہ عبدا لغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس شیشی میں عطر رکھتے ہو، پہلے اس کو صاف کر کے پھر اس میں عطر ڈالتے ہو، اگر اس شیشی میں پیشاب ہو تو گندی شیشی میں عطر نہیں رکھتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تزکیۂ نفس کو ضروری قرار دیا ہے کہ میرے پیغمبر کے علوم اُن ہی کو مفید ہوسکتے ہیں جن کے نفوس کا تزکیہ ہوگیا ہو۔ اگر حُبِّ دنیا، مال کی حرص، حسینوں کا عشق، دنیا کی رنگینیاں اور خباثتیں دل کی شیشی میں ہوں گی، تو علوم و معرفت کا عطر اس میں جاکر بے معنیٰ ہو جائے گا۔جتنا زیادہ دل صاف اور پاکیزہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کو    علومِ نبوت سے کیف ملے گا۔ بھئی عطر کے لیے شیشی دھوتے ہو یا نہیں؟ تو کیا علمِ دین عطر نہیں ہے؟ پھر دل کی گندی شیشی میں اﷲ تعالیٰ پاکیزہ علوم کا عطر کیسے ڈالیں گے؟ مولانا رومی نے فرمایا؎  
آں  زُجاجے  کو  ندارد  نورِ  جاں 
بولِ قارورہ است  قندیلش مخواں
جوشیشۂ دل نورِ جان یعنی اللہ کا نور نہیں رکھتاوہ قارورہ کی شیشی ہے، اس کو قندیل مت کہو، اس میں دنیا کی خباثت بھری ہوئی ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عرضِ مرتب 8 1
3 شیخ بنانا کیوں ضروری ہے؟ 9 1
4 علماء کے سامنے دعوائےعلم بے ادبی ہے 11 1
5 عمامہ کے متعلق ایک غلط فہمی کا اِزالہ 12 1
6 لنگی پہننا سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے 13 1
7 غیر ضروری کو ضروری سمجھنا گمراہی ہے 14 1
8 اصلی عشقِ رسول اتباعِ رسول ہے 15 1
9 حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا واقعہ 16 1
10 حضرت آسیہ کا ایمان 17 1
11 نااہل سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے 18 1
12 حضرت آسیہ کے لیے ایک عظیم الشان نعمت 19 1
13 اﷲ پر فدا ہونے کا انعام 19 1
14 اﷲ کے نام کی لذت 21 1
15 اہلِ علم کو اہلِ ذکر سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ 23 1
16 حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کو سات نصیحتیں 23 1
17 صحابہ کرام کی دین کی حرص 24 1
18 علماء پر تنقید نادانی و بدفہمی ہے 25 1
19 اسلام کا پیغام سارے عالَم میں پہنچ چکا ہے 26 1
20 کافروں کو مسلمان کرنا فرض نہیں ہے 27 1
21 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی تعداد 29 1
22 علماء کی تحقیر حرام ہے 30 1
23 اہانتِ علم و علماء کفر ہے 32 1
24 اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ 33 1
25 اہلِ علم کا بلند درجہ 34 1
26 علماء فرض کام میں لگے ہوئے ہیں 34 1
27 ہر مسلمان پر دعوت الی اللہ فرض نہیں 36 1
28 حضرت یوسف علیہ السلام کی دعائے حسنِ خاتمہ 38 1
29 دعوت الی اللہ کے لیے صلاحیت بھی شرط ہے 39 1
30 اپنی نظر میں حقیر ہونا مطلوب ہے 40 1
31 قرآنِ پاک کی رُو سے نبیوں والے کام 41 1
32 قرآن کا ترجمہ محض لغت سے کرنا عظیم گمراہی ہے 41 1
33 نباتات کے سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ 43 1
34 حکمت کی تعریف 44 1
35 ممنونِ سزا ہوں میری ناکردہ خطائیں 45 1
36 تزکیۂ نفس کے مدرسے کہاں ہیں؟ 47 1
37 تزکیۂ نفس کی مثال 49 1
38 تزکیۂ نفس کی تعریف 50 1
39 شیخِ کامل کے بغیر اصلاح نہیں ہوتی 52 1
40 جعلی پیروں کی جہالت 53 1
41 جس کا کوئی پیر نہ ہو اسے پیر نہ بنائیں 53 1
42 حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا توکّل 55 1
43 اپنی اور اہل و عیال کے دین کی فکر مقدم ہے 55 1
44 دین کے کام میں حدودِ شریعت کا لحاظ ضروری ہے 57 1
45 تبلیغی جماعت نافع ہے، کافی نہیں 62 1
46 تزکیۂ نفس علماء پر بھی فرض ہے 62 1
47 اکابر کا فنائے نفس 64 1
48 دین کے شعبے آپس میں رفیق ہیں، فریق نہیں 66 1
49 تبلیغی جماعت کا عظیم الشان فائدہ 67 1
50 تبلیغ کے مسائل بتانا تبلیغ کا انکار نہیں ہے 67 1
51 تبلیغی جماعت بہترین جماعت ہے 68 1
52 مبارک اور بے مثال جماعت 69 1
53 علماء کا اِکرام نجات کا سرمایہ ہے 70 1
54 کثرتِ ضحک کی شرح 71 1
55 ہنسنے میں بھی دل اﷲ سے غافل نہ ہو 73 1
56 حق بات کہنے کا سلیقہ 74 1
57 راہِ حق میں طعن و ملامت سے نہ ڈریں 75 1
58 اپنے عیوب کا استحضار رکھیں 76 1
59 اﷲ والے کی نافرمانی کی سزا 76 1
60 اہلِ علم کی فضیلت 78 1
61 بزرگوں کی دعاؤں کا اثر 78 1
Flag Counter