علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ والوں کا دل دُکھایا کرتا تھا۔ تب سے میں نے یہ سبق حاصل کیا کہ میں اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب سے کسی کے بارے میں اچھی بات کہتا ہوں، شکایت نہیں کرتا اور یہ عینِ سنت ہےاوریہ مزاجِ نبوت ہے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر سلیم الصدر رہوں، میرا سینہ صاف رہے، تاکہ سب کے ساتھ محبت سے ملوں، لہٰذا میں بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے کان میں کوئی شخص کسی کی شکایت کرے۔ کوئی بھلی بات کہہ کر میری محبت بڑھاؤ، میرے بھائیوں سے میری محبت کو بڑھاؤ، اپنے احباب کی تعریف سے میرا دل خوش ہوجاتا ہے۔ کمزوری کس میں نہیں ہے؟ جو شکایت کرتا ہے وہ خود کمزوریوں کا شکار ہے۔ بس دوسروں کا عیب اگر نظر آجائے تو آنکھیں بند کرلواور اﷲ سے دعا کرو۔ تزکیۂ نفس کی مثال ہمارے شیخ شاہ عبدا لغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس شیشی میں عطر رکھتے ہو، پہلے اس کو صاف کر کے پھر اس میں عطر ڈالتے ہو، اگر اس شیشی میں پیشاب ہو تو گندی شیشی میں عطر نہیں رکھتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تزکیۂ نفس کو ضروری قرار دیا ہے کہ میرے پیغمبر کے علوم اُن ہی کو مفید ہوسکتے ہیں جن کے نفوس کا تزکیہ ہوگیا ہو۔ اگر حُبِّ دنیا، مال کی حرص، حسینوں کا عشق، دنیا کی رنگینیاں اور خباثتیں دل کی شیشی میں ہوں گی، تو علوم و معرفت کا عطر اس میں جاکر بے معنیٰ ہو جائے گا۔جتنا زیادہ دل صاف اور پاکیزہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کو علومِ نبوت سے کیف ملے گا۔ بھئی عطر کے لیے شیشی دھوتے ہو یا نہیں؟ تو کیا علمِ دین عطر نہیں ہے؟ پھر دل کی گندی شیشی میں اﷲ تعالیٰ پاکیزہ علوم کا عطر کیسے ڈالیں گے؟ مولانا رومی نے فرمایا ؎آں زُجاجے کو ندارد نورِ جاں بولِ قارورہ است قندیلش مخواں جوشیشۂ دل نورِ جان یعنی اللہ کا نور نہیں رکھتاوہ قارورہ کی شیشی ہے، اس کو قندیل مت کہو، اس میں دنیا کی خباثت بھری ہوئی ہے۔