علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا توکّل اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس تبلیغ میں نکل پڑو۔گھر بار، ملازمت، کاروبار کچھ مت دیکھو،کیوں کہ سب کچھ خدا سے ہوتا ہے۔ آپ بتائیں! اگر کسی کی عورت بیمار ہے اور اسے استنجا کرانے کی ضرورت پڑجائے، تو دنیا میں کوئی رشتہ ہے جو عورت کی شرم گاہ کو چھو سکے سوائے شوہر کے۔ اگر ایسا توکّل جائز ہوتا کہ سب کام خدا سے ہوتا ہے، کوئی سبب اختیار نہ کروتو سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عین غزوۂ بدر میں کیوں حکم دیاکہ تمہاری بیوی بیمار ہے، جاؤ! مدینہ جا کر ان کی تیمار داری کرو۔ جس جنگ میں ملائکہ شامل تھے، جس جنگ پر اسلام کی بقا کا انحصار تھا، جو اتنی مبارک جنگ تھی کہ سارے اصحابِ بدر جنتی ہیں، ان کے نام کے واسطے سے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور جس جنگ میں خودسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شامل تھے۔ اس نبی کا تو یہ توکّل نہیں تھا کہ سب کچھ خدا سے ہوتا ہے،لہٰذا بیمار بیوی کو چھوڑ کر یہیں رہو، جبکہ نبی سربسجود ہوکر دعا کرسکتے تھے کہ اے اللہ! میری بیٹی کو صحت دے دے، لیکن آپ نے حدودِ شریعت قائم کیں،کیوں کہ توکّل کی تعریف ہے: تَرْکِیْبُ الْاَسْبَابِ دُوْنَ الْاِعْتِمَادِ وَ الْاِعْتِمَادُ عَلَی اللہِ یعنی اسباب کو اختیار کرنا مگر ان پر اعتماد نہ کرنا اور اعتماد اﷲ پر کرنا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عملاً اس کی تعلیم فرمادی،حالاں کہ غزوۂ بدر میں صرف تین سو تیرہ صحابہ تھے، اُس وقت مجاہدین کی کتنی کمی تھی، ا س کے باوجود آپ نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ واپس بھیج دیا کہ تم جا کر اپنی بیوی کی خد مت کرو، تمہیں اس مبارک جنگ کا پورا ثواب ملے گا اور تمہارا اصحابِ بدر ہی میں شمار ہوگا۔ نبی نے حقوقِ انسانیت سِکھائے ہیں ۔اور آج بیمار ماں باپ چارپائی پر پڑے ہیں، بیوی کے بچہ ہونے والا ہے، اس وقت شوہر کا وہاں موجود رہنا شرعاً ضروری ہے اور اس وقت اس کو چھوڑ کر نکلنا حرام ہے، لیکن یہ حدودِ شریعت کو توڑ کر بھاگے جارہے ہیں تبلیغ میں۔کہتے ہیں کہ چلو نکلو نکلو، سب اﷲ سے ہوجائے گا۔ اپنی اور اہل و عیال کے دین کی فکر مقدم ہے جن پر کوئی حقوق واجب نہیں ہیں، وہ اگر ساری زندگی تبلیغ کریں تو ماشاء اﷲ ان