علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
ان کے والد تبلیغ میں ملکوں میں گئے ہوئے ہیں۔ اگروہ ہوتے تو ان کی موجودگی میں یہ کام کرتی؟ اگر کسی کو ظنِ غالب ہو کہ میرے جانے سے میرے بچے آوارہ ہوجائیں گےتو اس کا جانا جائز نہیں ہوگا۔ اپنے بچوں کو بھی لے کر جائے اور اپنی بیٹیوں کو بھی ان کے محرم مثلاً دادا، نانا، ماموں، چچا یا استانی یا کسی اﷲ والی بزرگ عورت کے سپرد کر کے جائے۔ ہمارا کام حدود اور حقوق کو بیان کرنا ہے، جو نہ مانے خود ذمہ دار ہے۔ علماء اور محدثین موجود ہیں جو اپنے علم کی روشنی میں تصدیق فرمائیں گے کہ جو کچھ اختر نے بیان کیا ہےصحیح ہے یا نہیں۔ دین کے کام میں حدودِ شریعت کا لحاظ ضروری ہے ہماری مسجدِ اشرف میں الحمد ﷲ خوب تبلیغی کام ہوتا ہے، ہر ہفتہ گشت بھی ہوتا ہے۔ ابھی ہمارے یہاں تبلیغی جماعت آئی تھی، فجر کے بعد ان کی خاطر سے میں نے بیان کیا تھا۔ ان میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر ماں باپ نے دس دن کی اجازت دی ہے، تو کیا اس کو اختیار ہے کہ بغیر ماں باپ کی اجازت کے چالیس دن کے لیے چلا جائے؟ میں نے کہاچالیس دن لگانا مستحب ہے اور ماں باپ کا دل دُکھانا حرام ہے، لہٰذا جتنی اجازت دی ہے اس سے زیادہ نہ رُکو، دس دن کے بعد واپس چلے جاؤ، تبلیغ سے واپس جانے کے بعد ماں باپ کی خوب خدمت کرو، اتنے پیر دباؤ، اتنی تیل کی مالش کرو کہ ماں باپ کو یقین ہوجائے کہ اس جماعت میں ماں باپ کا اتنا ادب سکھایا گیا ہے، پہلے تو اتنا نالائق تھا۔ ان کو خوش کرو کہ ان کا ذہن بن جائے کہ چلو بھئی! تم چالیس دن کے لیے چلے جاؤ۔ تو سب نے میرا اتنا شکریہ ادا کیا۔ جب ان کو چھ نمبر کے علاوہ بدنگاہی کے نقصانات، جھوٹ بولنے کے نقصانات، ماں باپ کا دِل دُکھانے کی وعیدیں اور دوسری باتیں حدیثوں سے سنائی گئیں تو وہ کہنے لگے کہ ہمارا دل باغ باغ ہوگیا، لہٰذا بعد میں پھر ملنے آئے۔بعض لوگوں نے کہا کہ صاحب! ان میں اتنا غلو ہے جس سے ماں باپ اور بیٹوں میں جھگڑے ہوجاتے ہیں، ماں باپ دس دن کے لیے کہتے ہیں اور یہ چلے جاتے ہیں چلّے میں، لہٰذا اس غلو اور زیادتی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں گھروں کے اندر لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ بیوی کو حمل ہے اور وضعِ حمل بالکل قریب ہے، کل بچہ پیدا ہونا ہے اور شام کو ملکِ شام چلے گئے۔ بھئی ایک دن رک جاؤ ، ایک مہینہ ہے تو ایک مہینہ ٹھہر