علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
تو جب کسی عالم کو ہنستے دیکھتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں کہ صاحب یہ کیا ہے؟ حالاں کہ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مامو ں تھے، انہوں نے جنگِ بدر میں ایک مشرک کو تیر سے مار گرایا، وہ ننگا ہوگیا: فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی نَوَاجِذِہٖ 41؎آپ علیہ السلام اتنا ہنسے کہ داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں۔لہٰذا علم پورا ہونا چاہیے،اردو کی کتابیں پڑھ کر علماء کی اِصلاح مت کیجیے، مفتی نہ بنیے۔ ہنسنے میں بھی دل اﷲ سے غافل نہ ہو غرض ہمارے بزرگ ہنستے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں، لیکن ان کا دل اﷲ سے غافل نہیں ہوتا۔ ایک مجلس میں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ خوب ہنسے اور مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے پیر بھائیوں کو بھی خوب ہنسایا۔ بعد میں خواجہ صاحب نے پوچھا کہ سچ سچ بتائیں ہنسی کی اس محفل میں کیا آپ کے دل اﷲ سے غافل تھے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ بوجہ ادب کے ہم سب خاموش ہوگئے۔ اس پر حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد ﷲ! اس وقت بھی میرا دل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھا اور پھر یہ شعر پڑھا ؎لبوں پہ گو ہے ہنسی بھی ہر دم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے اﷲ والوں کی ہنسی اور اپنی ہنسی کو برابر مت سمجھو، کیوں کہ وہ بظاہر ہنس رہے ہوتے ہیں مگر ان کا دل پھر بھی رو رہا ہوتا ہے۔ اس پر میرا بھی ایک شعر ہے ؎لب ہیں خنداں جگر میں ترا درد و غم تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم اﷲ والا اگر کاروبار بھی کر رہا ہے، مخلوق میں بھی بیٹھا ہے، بات چیت بھی کررہا ہے اور ہنس بھی رہا ہے، مگر اُس وقت بھی وہ خدا کے ساتھ ہے۔ جسم کے مرتبے میں وہ آپ کے ساتھ ہے اور روح _____________________________________________ 41؎صحیح مسلم:281/2،باب فی فضل سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ،ایج ایم سعید