علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
مفتی رشید احمد صاحب سے بات کی کہ جو لوگ جاپان جاکر مسلمان بنا رہے ہیں،یہ لوگ زیادہ افضل ہیں یا علماء جو بخاری پڑھا رہے ہیں؟ تو مفتی صاحب ہنسے کہ جو لوگ تبلیغ کا مبارک کام کررہے ہیں وہ مستحب میں مشغول ہیں فرض میں نہیں۔ ایک کافر بھی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ اسلام کیا ہے، اذان کیا ہے ،اور اب تو ریڈیو ٹیلی ویژن سے اذانوں کی آوازیں سارے عالم میں پہنچ چکی ہیں، اسلام کا پیغام سارے عالم میں پہنچ چکا ہے، سب سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک مذہب ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اسلام کے علاوہ اب کوئی دین اﷲ کے یہاں قبول نہیں، نجات کا ذریعہ صرف اسلام ہے،لہٰذا اب ان کافروں کے ذمے تحقیق ہے، لیکن جو ان کو دین کی دعوت دینے جاتے ہیں وہ بھی ثواب سے محروم نہیں رہیں گے،کیوں کہ وہ بخاری نہیں پڑھا سکتے تو یہی کام کرلیں اور ثواب حاصل کریں۔ ہم مدرسے میں مشغول ہیں تو ان حضرات کو جانے کا موقع دیا جائے کہ ہمارا مال جگہ جگہ پہنچا ؤ، اس لیے ان کی قدر کرنی چاہیے، لہٰذا ہم اپنے دوستوں کو متوجہ بھی کرتے رہتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ شرکت کرو۔ کافروں کو مسلمان کرنا فرض نہیں ہے تبلیغ کا کام مبارک ہے،مستحب ہے، پسندیدہ ہے، لیکن اب فرض کے درجے میں نہیں ہے، بلکہ کافروں کو مسلمان کرنا اسلام نے فرض نہیں کیا۔ اگر کافروں کو مسلمان کرنا فرض ہوتا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جن علاقوں کو فتح فرماتے ان کو اس فرض پر مجبور کرتے، کیوں کہ فرض پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی مجبور نہیں فرمایا، بلکہ حکم دیا کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ دو۔ پس جو کفار جزیہ دینے پر راضی ہوجاتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا، زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔اور جزیہ کا حکم اس لیے ہے کہ اسلام کی شوکت وعزت اور کفر کی ذلت وپستی ظاہر ہو۔ جزیہ لے کر ان کو اسلام پرمجبور نہ کرنے کے کیا معنیٰ ہوئے؟ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ ان کو مسلمان کرنا فرض نہیں ہے، اسلام کی اطلاع دینا فرض ہے اور وہ ہوچکی، اب اگر تمہارا دل نہیں چاہتا تو ہم تمہیں مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتے۔ اگر مسلمان بنانا فرض ہوتا تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے کہ میری رحمت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ تمہارے چند پیسوں سے تمہارے کفر پر راضی ہوجاؤں،یعنی تمہارے دوزخ میں جانے پر راضی ہوجاؤں۔ اس سے معلوم ہوا کہ