علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
رعایت کے ساتھ دین کا کام کرو، حدود کو توڑ کر نہ کرو۔ جیسے حج کے موقع پر نویں تاریخ کو اﷲ تعالیٰ عرفات میں ملتے ہیں، اُس وقت کعبہ سے لپٹنے سے اﷲ نہیں ملے گا، نویں تاریخ کو سب حاجی میدانِ عرفات گئے اور یہ غلافِ کعبہ پکڑے رو رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں اﷲ کے گھر کو نہیں چھوڑوں گا،یہ بے وقوف ہے، اس کا حج نہیں ہوگا۔ اس لیے دوستو! علماء کے ساتھ رہو اور قرآن و حدیث کی روشنی میں رہو۔ اب بتلائیے کہ اگر کوئی غیر عالم ہوتا اور تبلیغ کا جوش ہوتا،تو وہ یہ کہتا کہ ارے میاں! بیوی کو چھوڑو، سب اﷲ سے ہوتا ہے، اﷲ سب ٹھیک کر دے گا، جاؤ تم نکلو ، نکلو، نکلو۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ تبلیغ میں وقت لگانے سے پہلے علماء سے مسئلہ پوچھو کہ ہمارے ذمے کوئی حقوق تو نہیں، پھر جو وہ بتائیں اُس پر عمل کرو۔اور علماء بھی وہ علماء جن کے مزاج میں اعتدال ہے۔چناں چہ حدیث میں آتا ہے کہ قاضی فیصلہ نہ کرے جب اُس پر حالِ غضب غالب ہو جائے، تو جن پر تبلیغ کا حال غالب ہوگیا وہ علماء بھی اس قابل نہیں کہ ان سے مسئلہ پوچھا جائے کیوں کہ وہ مغلوب الحال ہوگئے، لہٰذا بعض ایسے نادان کہتے ہیں کہ علماء کے لیے نو چلّہ ہے جس کا مقصدیہ ہے کہ ان کو اتنا رگڑو کہ ان کی علمی شان باقی نہ رہے، وہ مغلوب الحال ہوجائیں، یعنی غالب علی الاحوال نہ رہیں۔ اس میں دوسرا نکتہ یہ بھی ہے کہ نفس میں جو بڑائی ہے وہ ختم ہوجائے ۔ جو بڑے ہیں وہ تو یہی فائدہ بیان کرتے ہیں، لیکن بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے ایک بات میرے قلب پر منکشف ہوئی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر کون فقیہ ہوسکتا ہے؟ جن کے اسلام پر آسمانوں میں خوشی منائی گئی۔ انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں حکم جاری کیا تھا کہ ہر چار مہینہ بعد سپاہی میدانِ جہاد سے گھر واپس آکر بیوی کا حق ادا کرے ،اور یہ قانون کس بات پر بنایا تھا؟ ایک مرتبہ گشت میں سنا کہ ایک عورت ایسے اشعار پڑھ رہی ہے کہ اگر اﷲ کا خوف نہ ہوتا، تو میں نامناسب کام سے اپنی خواہش پوری کر لیتی۔ تو آپ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ سے پوچھا کہ بیٹی! عورت اپنے شوہر سے کتنےعرصہ کی جدائی برداشت کرسکتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ چار مہینے۔ تو آپ نے قانون بنا دیا کہ ہر چار مہینے بعد سپاہی جہاد سے واپس آئے اور بیویوں کا حق ادا کرے۔ اور اگر کوئی شیخِ فانی ہوجائے یعنی بڈھا ہوجائے۔ اب کسی کی کیا مثال دوں؟ بعضے