ہے۔ آخر میں حضرت تھانوی کو حاسدین سے اتنا اندیشہ ہوگیا تھا کہ پورے چھ ماہ کا ارادہ پورا نہ ہوسکا اور ہفتہ عشرہ پہلے ہی تشریف لے آئے کہ ابھی تو میں حضرت کے یہاں مقبول ہوں آیندہ کہیں لگائی بجھائی کرنے والے حاسدین حضرت کو میری طرف سے مکدرنہ کردیں۔ اس لیے انشراح کی حالت میں ہی رخصت ہوجانا چاہیے اور اسی سفر میں اعلیٰ حضرت کی طرف سے اجازتِ بیعت بھی حاصل ہوگئی۔ واپسی پر اپنے مشغلہ علمیہ میں مشغول رہے۔
اسی دوران میں حضرت کے ماموں پیر جی امداد علی جو عرصہ سے حیدر آبار میں مقیم تھے اور نہایت مغلوب الحال والمقال حیدر آباد سے واپسی میں کان پور کو قصدا اس تمنا میں گزرے کہ بھانجے کو بھی جن کا شہرہ سن رہے تھے ملاقات کروں، وہ کان پور میں آکر سرائے میں ٹھہرے اور حضرت کو اطلاع دی کہ اگر تم اپنی وضع کے خلاف نہ سمجھو تو مجھ سے سرائے میں آکر مل جاؤ۔ حضرت ملنے تشریف لے گئے اور باصرار اپنے مکان پر لے آئے۔ ماموں صاحب نے فرمایا بھی کہ میاں تم عالم باعمل ہو، مجھے اپنے یہاں نہ لے جاؤ کہ دیکھنے والے یہ کہیں گے کہ کس لچے کو لے آئے، مگر حضرت کے اصرار پر پیرجی صاحب مع اپنے سازو سامان کے جس میں آلاتِ سماع بھی تھے مکان پر آگئے، حضرت فرمایا کرتے تھے کہ ماموں صاحب میں اتنی سوزش تھی کہ کلمات سے آگ سی نکلا کرتی تھی، جس پر حضرت تھانوی ؒ کو ایک جوش پیدا ہوا کہ جس طرح بھی ہو ان سے عشق کی آگ لی جائے اور بے اختیار ماموں صاحب کی طرف رجوع کرلیا۔
حضرت تھانوی کا یہ رجوع دوسری مرتبہ تھا، پہلی مرتبہ سفرِ حج ثانی ۱۰ھ سفرِ اجازتِ بیعت سے پہلے کا ہے۔ اس کا بیان ’’اشرف السوانح‘‘ صفحہ: ۲۱۵ پر ہے۔ بعض حضرت تھانوی کے سوانح لکھنے والوں نے دونوں کو خلط کردیا۔ اسی دوسرے رجوع پر حضرت گنگوہی ؒ کی وہ خط وکتابت ہے جو ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں مفصل موجود ہے۔ حضرت تھانوی کے اس رجوع پر حضرت گنگوہی ؒ نے مولانا منور علی صاحب کے واسطے سے حضرت تھانوی سے شکوہ کیا۔ جس کا مختصر ذکر ’’یادِ یاراں‘‘ میں بھی ہے۔ ’’اشرف السوانح‘‘ میں تو یہ قصہ بہت مختصر ہے اور خط کی طرف صرف اشارہ ہے، لیکن ’’تذکرۃ الرشید‘‘ صفحہ ۱۱۴ جلد اول پر یہ تذکرہ حضرت گنگوہی وحضرت تھانوی کی مکررسہ کرر مراسلت کے ذیل میں مذکور ہے۔ البتہ ’’اشرف السوانح‘‘ کی ترتیب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ وہنگامہ حضرت تھانوی کے دوسرے سفرِ حج اور اجازت سے قبل کا ہے، لیکن ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں ان خطوط پر جو تاریخیں درج ہیں ان میں حضرت تھانوی کے سب سے پہلے خط پر ۲۹؍ ذیقعدہ ۱۳۱۴ھ ہے اور حضرت گنگوہی کے جواب پر ۵؍ ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ ہے۔ اسی طرح حضرت تھانوی کا دوسرا عریضہ ۱۳؍ ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ کا ہے اور حضرت گنگوہی کا جواب ۵؍ محرم الحرام کا ہے۔ اور تیسرا عریضہ حضرت تھانوی کا ۸؍ محرم ۱۳۱۵ھ کا ہے اور اس پر حضرت گنگوہی کا جواب ۱۲؍ محرم ۱۳۱۵ھ کا ہے، اس کے بعد کئی مکاتبتیں ہیں، آخری