ایک ابراہیم ؑ، دوسرے نوح ؑ۔ اور میرے دو ساتھی ہیں، ایک نرمی کا حکم کرتے اور دوسرے سختی کا، ایک حضرت ابوبکر ؓ، دوسرے حضرت عمر ؓ۔ یہ مضمون ’’اعتدال‘‘ میں بہت تفصیل سے آچکا ہے۔ اس لیے اکابر کے اختلافِ رائے اور اختلافِ طبائع کو ہم جیسوں کے آپس کے اختلاف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حضرت تھانوی ؒ کا یہ ارشاد کہ باوجود اختلاف کے انجذاب ہوتا تھا کوئی نئی چیز نہیں، حضرات شیخین کی آپس کی محبت کا کون اندازہ کرسکتا ہے؟
میرے حضرت شاہ عبدالقادر صاحب اس سیہ کار سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا تمہارا ہر چیز میں تو اختلاف، مجھے میٹھے کا شوق تمہیں نفرت، میں مرچ کے پاس نہیں جاتا تم سے بغیر مرچ کھایا نہیں جاتا۔ تم گوشت بغیر نہیں کھاسکتے اور میں گھاس کھانے والا وغیرہ وغیرہ کے بعد فرمایا کرتے: پھر معلوم نہیں تمہاری طرف اتنی کشش کیوں ہے؟ پھر بعض دفعہ فرما دیا کرتے کہ اس اختلافِ طبائع کے باوجود معلوم نہیں تم سے عشق کیوں ہوگیا؟ بہرحال علما اور اکابر کا اختلافِ رائے اور اختلافِ مسائل بہت ہی مبارک ہے، مگر ہم جیسے نااہل، نالائق اس کو ایک فتنہ بنا دیتے ہیں۔
۱۸۔ متعلقہ صفحہ ۲۳: ’’اصلاح انقلاب‘‘ جلد دوم میں مستقل رسالہ ’’الخطوب المذیبۃ للقلوب المنیبۃ‘‘ میں اس کی تفصیل موجود ہے، وہاں حضرت کے نام کو ایک بزرگ صاحبِ ارشاد وتلقین کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔
ترجمۃ المصنف
از حضرت شیخ الحدیث مولانا الحاج محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم۔
اس ناکارہ کے اکابر شموس وبدورِ ہدایت، ہر ایک اپنے علوم ومعرفت اور علوِ شان، فقہ وسلوک، تفسیر وحدیث میں ممتاز:
أولئک آبائي فجئني بمثلہم
إذا جمعتَنا یا جریر المجامع