میں رونق افروز ہوئے۔
۴۔ متعلقہ صفحہ ۷: حضرت سہارن پوری نور اللہ مرقدہ ۱۲۸۸ھ یا ۱۲۸۹ھ میں حضرت قطب الارشاد مولانا گنگوہی سے بیعت ہوئے تھے، جیسا کہ خود حضرت سہارن پوری کی تحریر ’’مقدمہ اکمال الشیم‘‘ میں لکھا ہے اور اس بیعت کی تفصیل بھی لکھی ہے۔ اس کے بعد ۱۲۹۷ھ میں جب کہ حضرت سہارن پوری کا دوسرا سفرِ حج تھا، حضرت قطبِ عالم مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنے پیر ومرشدِ اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کو بطور سفارش کے یہ تحریر فرمایا کہ مولوی خلیل احمد حاضرِ خدمت ہوتے ہیں، حضرت ان کی حالت پر مطلع ہو کر مسرور ہوں گے، چناں چہ جب آپ حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت آپ کی باطنی کیفیت مشاہدہ فرماکر نہایت خوش ہوئے اور جب آپ محرم ۱۲۹۸ھ میں واپس ہونے لگے تو چھاتی سے لگایا اور اپنی دستار مبارک اپنے سر سے اتار کر حضرت سہارن پوری کے سر پر رکھ دی، اور حضرت گنگوہی کے نام مبارک باد کا خط اور حضرت سہارن پوری کے نام کا خلافت نامہ مزین بمہر آپ کے حوالہ فرماکر آپ کو رخصت کیا۔
حضرت نے اس شاہی عطیہ کو ایک خاص احترام کے ساتھ قبول کیا اور دستار مبارک کو اسی بندش پر جو اعلیٰ حضرت کی باندھی ہوئی تھی جگہ جگہ سوئی سے سی لیا کہ اس کے بل جدا نہ ہونے پائیں۔ اور جب ہندوستان پہنچ کر گنگوہ حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت کا والا نامہ پیش کرکے یہ دونوں عطیے بھی حضرت گنگوہی کے سامنے رکھ دیے۔ حضرت نے فرمایا کہ مبارک ہو یہ تو اعلیٰ حضرت کا عطیہ ہے، آپ نے عرض کیا کہ بندہ تو اس لائق نہیں، یہ حضور کی بندہ نوازی ہے اور میرے لیے تو وہی مبارک ہے جو آں حضرت کی طرف سے عطا ہو۔ نیز یہ بھی عرض کیا کہ اجازت نامہ درحقیقت شہادت ہے کسی مسلمان کے ایمان کی، لہٰذا دو مقبول شہادتیں ثبت ہوں گی تو ہر شخص کی نفسی نفسی پکارنے کے وقت بارگاہِ خدا میں پیش کرسکوں گا۔ حضرت امام ربانی آپ کے اس حسنِ ادب سے کہ اصل کمال یہی ہے بہت خوش ہوئے اور خلافت نامہ پر دستخط فرماکر مع دستار آپ کے حوالہ فرما دیا۔ (تذکرۃ الخلیل: ۵۸)
۵۔ متعلقہ صفحہ ۷: حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی نور اللہ مرقدہ طالب علمی کے آخری دور ۱۲۹۹ھ میں بحالت قیام دیوبند بذریعۂ خط شیخ العرب والعجم سید الطائفہ حضرت حاجی صاحب سے بیعت ہوئے (تمہید تربیۃ السالک) حضرت تھانوی نے ’’یادِیاراں‘‘ کے شروع ہی میں اس قصہ کو خود تحریر فرمایا ہے کہ سب سے اول اس نااہل کو اس مرکز دائرۂ ارشاد کی زیارت اس وقت ہوئی جب میں مدرسۂ دیوبند میں پڑھتا تھا اور وہاں حضرت اپنی تشریف آوری سے اہلِ مدرسہ کو واہلِ شہر کو گاہ گاہ مشرف فرمایا کرتے تھے۔ سن یاد نہیں رہا دیکھنے سے میرے قلب میں جو عقیدت اور محبت پیدا ہوئی وہ میرے لیے باعث اس کی ہوئی کہ باوجود حقیقت وغایتِ بیعت کے نہ سمجھنے کے میں نے بیعت کی درخواست کی، چوں کہ طبیبِ