چاہے کھلا دو، زکاۃ کا کھلا دو، صدقے کا کھلا دو، تیجے کا کھلا دو، مجھ پر بہت ہی شفقت فرمایا کرتے تھے، مجھے اپنے رام پور کے مدرسے کے لیے حضرت ؒ سے کئی بار مانگا، مگر حضرت نے ہر مرتبہ یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ یہ تو مظاہر میں رہے گا۔ عزیز عامر نے لکھا ہے کہ دادا صاحب کی پیدائش ۲۰؍ ذی قعدہ، ۱۲۸۲ھ قبیل صبح صادق ہوئی۔ محمد ظریف تاریخی نام ہے اور یہی بندہ کی ’’تاریخِ کبیر‘‘ میں بھی ہے اس میں سنِ وفات اوائل ۴۲ھ تحریر ہے، رام پور کے اپنے جدی قبرستان میں جناب الحاج حافظ محمد یوسف صاحب بن جناب حضرت الحاج حافظ محمد ضامن صاحب شہید کے برابر میں دفن ہوئے۔ نور اللّٰہ مرقدہ وأعلی اللّٰہ مراتبہ۔
۱۶۔ متعلقہ صفحہ ۱۳: بھاول پور کے سفر کے متعلق ایک واقعہ اس ناکارہ کے بھی علم میں ہے۔ اور اس جام کو پڑھ کر بندے کے ذہن میں آیا کہ غالباً وہ واقعہ بھی اسی سفر کا ہیں جس کو میں لکھوا رہا ہوں، اور یاد پڑتا ہے کہ ’’آپ بیتی‘‘ میں اس واقعہ کو کہیں لکھوا بھی چکا ہوں کہ حضرت مولانا الحاج سررحیم بخش صاحب سرپرست مدرسہ مظاہر علوم متوطن ٹھسکہ میرانجی ریاست بھاول پور کے وزیر تھے۔ اور نواب صاحب بھاول پور کے انتقال کے بعد چوں کہ نواب زادہ ولی عہد کم سِن تھے اس لیے یہ ان کے اتالیق کے طور پر ان کے بلوغ تک نواب صاحب کے قائم مقام رہے اور سارے اختیارات ریاست کے ان ہی کے قبضے میں تھے اور چوں کہ حضرت قطب عالم گنگوہی ؒ سے بیعت تھے، اس لیے حضرت کے اجل خلفائے اربعہ اور حضرت حکیم الامت سے بہت خصوصی تعلق تھا اور ان کے اس خصوصی تعلق کی بنا پر ان حضراتِ اکابر کا ان کی درخواست پر بھاول پور کثرت سے تشریف لے جانا ہوا کرتا تھا، بہت ہی خوبیوں کے آدمی تھے۔
یہ وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق علی میاں نے عزیز مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کی سوانح کے باب اول صفحہ: ۹۲ میں اس سیہ کار کا ذکر کرتے ہوئے اس ناکارہ کے متعلق دو ابتلا لکھے، جس میں سے دوسرا کرنال میں مدرسی کے لیے اس ناکارہ پر وہاں کی مدرسی کے لیے زور دیا، مرحوم کی کوئی سوانح بھی ان کے انتقال کے بعد لکھی گئی تھی جو اس وقت یاد نہیں۔ باوجود نواب صاحب کی قائم مقامی کے ایسی سادہ زندگی گزارتے تھے کہ جب انگریزی درباروں میں وائسرائے وغیرہ یا وزیرِ ہند کی آمد پر کوئی دربار ہوتا تو وہ اس میں ضرور مدعو ہوا کرتے تھے، اور ان کی کرسی نوابوں کی کرسی کے پاس ہی ہوتی تھی، چوں کہ سادہ لباس ہوا کرتا تھا اور بہت ہی سادہ اور ان کے ملازم نہایت ہی خوش پوشاک، کوٹ بھی زریں قیمتی جس پر سنہرے بٹن بھی کثرت سے لگے ہوئے ہوتے تھے، پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ سارے درباری یہ سمجھتے کہ یہ ملازم تو وزیر صاحب ہیں اور ان کا چوبدار آگے آگے جارہا ہے، لیکن جب دربار میں پہنچنے کے بعد یہ اپنی کرسی پر بیٹھتے اور ملازم چونری لے کر کرسی کے پیچھے کھڑا ہوتا جب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ یہ وزیر صاحب ہیں اور یہ ان کے چوبدار۔ بڑی خوبیاں تھیں، اپنی