کے حاضر باش، نہایت سادہ مزاج، مولانا مرحوم کے انتقال کے کئی سال بعد تک ٹھسکہ ہی میں رہے اور گھر کا سارا مہمانوں وغیرہ کا انتظام حافظ صاحب مرحوم ہی کے ذمہ تھا، مولانا مرحوم کے انتقال سے چند سال پہلے انھوں نے اپنے ضعف کی وجہ سے اپنے بھتیجے کو بھی ملازم کردیا تھا جو نہایت جوان فوجی آدمی معلوم ہوتا تھا، اوپر جس خوش پوشاک ملازم کا ذکر کیا گیا وہ یہی دوسرے ملازم تھے۔ (تاریخِ کبیر)
۱۷۔ متعلقہ صفحہ ۲۲: اس نوع کا ایک ارشاد حکیم الامت کا حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی نور اللہ مرقدہ کے متعلق بھی ہے، جس کی تفصیل آپ بیتی ۴ میں حضرت حکیم الامت کے احوال میں گزر چکی ہے جو حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی نور اللہ مرقدہ کی گرفتاری محرم ۵۱ھ کے سلسلے میں ارشاد فرمایا۔ علما حقہ میں رائے کا اختلاف مذموم چیز نہیں بلکہ محمود ہے بڑی رحمت ہے، بشرطے کہ خلافِ نزاع مجادلہ کا ذریعہ نہ بنے۔ اس ناکارہ نے تو جب سے ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ شروع کی تھی اسی وقت سے علما کے اختلاف کو بالخصوص صحابہ کرام، ائمۂ مجتہدین کے اختلاف کو بڑی رحمت سمجھتا رہا ہے۔ یہ میرا طبعی ذوق ہے، لیکن جب کتبِ حدیث میں حضرت عمر بن عبدالعزیز عمرِ ثانی ؓ کا یہ مقولہ نظر سے گزرا کہ مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ حضور ﷺ کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش نہ رہتی، حدیث پاک کے پڑھانے کے درمیان میں ہمیشہ میں نے اس پر زور دیا کہ اہلِ حق کا اختلاف مبارک ہے مذموم نہیں۔ اب سے ۳۴ سال پہلے جب کہ حضرت حکیم الامت اور حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہما کے درمیان میں لیگ کانگریس کا اختلاف تھا۔
اس وقت شعبان ۵۷ھ میں اس ناکارہ کا ایک رسالہ الاعتدال في مراتب الرجال شائع ہوا تھا، جس کو میرے دونوں اکابر اور ان کے مخصوص خدام نے بہت ہی پسند کیا تھا۔ بالخصوص حضرت اقدس مولانا الحاج الشاہ عبدالقادر صاحب نور اللہ مرقدہ اور میرے چچا جان حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کے شدید اصرار پر وہ رسالہ نہایت عجلت میں طبع کرایا گیا تھا اور اس کے بعد سے ہندو پاک میں کئی مرتبہ طبع ہوکر فروخت اور تقسیم ہوچکا ہے۔ اس کے سوال: ۷ کے جواب میں یہی مضمون بہت تفصیل سے لکھا گیا تھا۔ اور میرے حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہ کے سفری بیگ میں تو یہ رسالہ مستقل رہتا تھا اور اسفار میں کبھی کبھی ملاحظہ بھی فرماتے رہتے تھے۔ میرے اکابر میں مسائل میں نہیں بلکہ طبائع میں بھی ہمیشہ اختلاف رہا اور اس اختلاف پر ثمرات بھی بہت مختلف مرتب ہوتے رہے۔
حضرت اقدس شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ ؒ کے یہاں رحم دلی، دل داری کا بہت غلبہ تھا۔ حضرت تھانوی نے ایک ملفوظ میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت حاجی صاحب تھانہ بھون میں اپنے مشاغل سے فارغ ہو کر دوپہر کے وقت قیلولہ کے لیے ایک