خاص تواضع ہی سے ناشی ہے۔
جام نمبر ۴: احقر مولانا کے سامنے وعظ کہتا ہوا بے حد شرماتا تھا گو امتثالِ امر کے سبب عذر نہ کرسکتا تھا، لیکن مولانا نہایت شوق ورغبت سے استماع فرماتے تھے۔
فائدہ: اس میں علاوہ تواضع کے اہتمامِ علم کے فضائل کی بھی تحصیل ہے جس پر سلفِ صالح عامل تھے۔
جام نمبر ۵: ایک بار احقر کے مواعظ کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ اس کے بیان میں کہیں انگلی رکھنے تک کی گنجائش نہیں۔
فائدہ: اس میں حسن ظن وسنت مدح لتالیف القلب وتحضیض علی الخیر کا ثبوت ظاہر ہے۔
جام نمبر ۶: گاہ گاہ غریب خانہ کو بھی اپنے اقدام سے مشرف فرماتے تھے۔ مجھ کو یاد1 ہے کہ غالباً جب اول بار تشریف آوری ہوئی تو احقر نے جوشِ محبت میں کھانے میں کسی قدر تکلف بھی کیا۔ اور اہلِ قصبہ میں سے بھی بعض عمائد کو مدعو کردیا کہ عرفاً یہ بھی معزز ضیف کا اکرام ہے (ان بعض عمائد نے میری اس خدمت کا یہ حق ادا کیا کہ بعد جلسۂ دعوت کے مجھ کو بدنام کیا کہ طالبِ علم ہو کر اتنا تکلف کیا؟ پانچ چھ کھانے والوں کے سامنے بہتر یا باسٹھ برتن تھے، میں عدد بھول گیا کہ کون سا فرمایا تھا۔ اس روایت کے قبل مجھ کو تکلف کے مقدار کی طرف التفات بھی نہ ہوا تھا) مولانا نے مزاحاً فرمایا کہ یہ تکلف کیوں کیا گیا؟ میں نے عرض کیا کہ اس کا سبب خود حضرت ہی ہیں، اگر بکثرت کرم فرماتے تو ہرگز تکلف نہ کرتا، یہ تقلیل سبب ہے اس تکثیر کا، اس کے بعد آمد کی تکثیر ہوگئی اور تکلف کی تقلیل۔