اللہ عنہ آخر جمادی الاولی ۱۳۳۶ھ۔
اس کے بعد جام مذکور میں حکایت: ۴ کے متعلق ذکر فرمایا ہے وہ ’’الامداد‘‘ بابت ماہ جمادی الثانیہ ۱۳۳۶ھ میں حسبِ ذیل مذکور ہے۔ حکایت: ۴ ایک شخص کا خواب مع تعبیر جو بعنوان ’’سوال وجواب‘‘ ذیل میں منقول ہے۔
سوال : ۱۴؍ جمادی الاخری روزِ جمعہ بوقت شب خواب میں احقر نے حضور مقبول ﷺ کو دیکھا، آپ نے فرمایا کہ شاہ صاحب! مولانا صاحب شیخِ کامل ہیں، حضور ﷺ نے آپ کے نام میں مولوی کہہ کے سکوت فرمایا، بعد کو غالباً دو منٹ سکوت فرماکے لفظ ’’صاحب‘‘ کہا اور ’’شاہ صاحب‘‘ صاف فرما گئے بیچ میں سکوت نہ کیا، نہ معلوم وجہ سکوت کیا ہے؟ جو کچھ تعبیر ہو مطلع فرمایا جاوے۔
الجواب: عن عائشۃ ؓ قالت: کان رسول ﷺ مضطجعا في بیتہ، کاشفا عن فخذیہ أو ساقیہ، فاستأذن أبو بکر ؓ فأذن لہ، وہو علی تلک الحال فتحدث، ثم استاذن عمر ؓ فأذن لہ، وہو کذلک فتحدث، ثم استأذن عثمان ؓ فجلس رسول اللّٰہ ﷺ وسوی ثیابہ (إلی قولہ) قال: إن عثمان رجل حیي وأنی خشیت إن أذنت لہ علی تلک الحالۃ أن لایبلغ إلي في حاجتہ۔ رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جناب رسول ﷺ کا یہ طرز تھا کہ حضرت عثمان ؓ پر صفتِ حیا ولحاظ کے غلبہ سے آپ نے ان کے ساتھ برتاؤ کا لحاظ کیا اور شیخین کے ساتھ بے تکلفی کا برتاؤ کیا اور لفظِ صاحب ہمارے محاورہ میں لحاظ کے موقعہ پر بولا جاتا ہے۔ سو جن صاحب کے نام کے ساتھ حضور ﷺ نے لفظِ صاحب فرمایا ہے ان میں اس شانِ عثمانی کا غلبہ مشاہد ہے اور جس کے نام کے ساتھ یہ لفظ فوراً نہیں فرمایا اس سے شیخین کا سا برتاؤ کیا اور پھر وقفے کے بعد ’’صاحب‘‘ کا لفظ فرمانا یہ مخاطب کی رعایت کی مصلحت سے ہے کہ وہ خالی نام لینے سے بے وقعتی اس نام والے کی نہ کرے، آگے اللہ کو معلوم ہے کیا راز ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ کسی ایسے شخص سے تعبیر پوچھی جاتی جو خواب کے تعلق والوں سے علیحدہ ہوتا اور محقق بھی ہوتا، والسلام۔
مکرر یہ ہے کہ محض اس خواب کی بنا پر کسی کے کمال وغیرہ کے معتقد نہ ہوں کہ خواب حجتِ شرعیہ نہیں ہے، حالتِ بیداری میں جس کی حالت کو شریعت پر پورا منطبق دیکھیں اس کو کامل سمجھیں، والسلام۔