آیندہ سال تک زندہ رہے گا۔ اس پر والد صاحب نے لکھا کہ یہ میں کیسے لکھ سکتا ہوں تو حضرت تھانوی نے لکھا کہ پھر حج کو کیسے مؤخر کرسکتا ہوں؟ اس پر والد صاحب نے بہت ہی عجلت کی حالت میں شوال ۱۳۰۱ھ میں نہایت عجلت میں اپنی صاحب زادی کا کھڑے کھڑے نکاح پڑھ دیا اور شادی کی تقریبات سے فراغت بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت تھانوی کے ساتھ حج کو روانہ ہوگئے، جب کہ حضرت تھانوی ؒ کو کانپور کی ملازمت کو چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ اس سال دریا میں طغیانی بہت شدت سے تھی۔ راستہ میں والد صاحب کے دوستوں نے طغیانی سے ڈرایا بھی، مگر والد صاحب نے فرمایا کہ اب تو ارادہ کرلیا ہے۔ واقعی سمندر میں بہت زیادہ طغیانی تھی اور حضرت کا جہاز حیدری نام بہت چھوٹا جہاز تھا جو طغیانی کا تحمل نہیں کرسکتا تھا۔ کبھی ادھر جھکتا کبھی ادھر۔ موج کا پانی جہاز کے اوپر کو گزرتا اور سب سامان کو بھگو دیتا، لیکن اللہ کے فضل سے نہایت عافیت کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ حضرت تھانوی کا ارشاد ہے کہ جب اول بار بیت اللہ پر نظر پڑی ہے تو اس طرح کیفیت انجذابیہ شوقیہ ہوئی کہ پھر عمر بھر بھی کبھی نہیں ہوئی۔ اعلیٰ حضرت مہاجر مکی کو بھی حضرت کی حاضری پر نہایت مسرت ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ تم چھ ماہ میرے پاس رہ جاؤ۔ لیکن والد نے مفارقت گوارا نہ کی تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ اب تو والد کی اطاعت کرو پھر کبھی موقعے ہوا تو چھ ماہ آکر رہ جانا۔
اس سفر میں تجدیدِ بیعت دست بدست بھی ہوگئی اور حضرت حکیم الامت کے والد بھی اسی سفر میں مشرف بہ بیعت ہوئے۔ باوجود اعلیٰ حضرت کی خواہش کے والد صاحب نے مفارقت گوارا نہ کی اس لیے واپس آنا پڑا لیکن باوجود یہ کہ حجاز سے واپسی پر جامع العلوم کان پور میں درس وتدریس کا سلسلہ چلتا رہا، لیکن دن بدن طبیعت پر علومِ باطنی کی طرف میلان بڑھتا رہا اور ۱۳۰۷ھ میں ذکر وشغل کی طرف جب زیادہ میلان بڑھ گیا تو حضرت حاجی صاحب سے ترکِ ملازمت کی اجازت چاہی، لیکن حاجی صاحب نے منظور نہیں فرمایا جو مفصل تو ’’مکتوباتِ امدادیہ‘‘ میں ہے اور مختصر ’’اشرف السوانح‘‘ میں صفحہ: ۱۷۳ پر فارسی میں بھی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ذوق وشوق کے حالات سے ترقی کا اندازہ ہوا، البتہ ملازمت کا ترکِ تعلق مناسب نہیں کہ یہ تجردانہ زندگی کے مناسب ہے۔ اہل وعیال کو مضطرب چھوڑنا ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ والا نامہ ۲۲؍ محرم ۱۳۰۸ھ کا ہے، اسی ذوق وشوق میں حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں حاضری کے عرائض بار بار لکھے اور چوں کہ ۱۳۰۵ھ میں والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا اس لیے اجازت کا مسئلہ بھی نہ تھا۔ ۱۳۱۰ھ کے آخر میں حج کے لیے روانہ ہوئے اور اعلیٰ حضرت کی تمنا کہ ’’چھ ماہ میرے پاس رہو‘‘ کو پورا کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔
وہاں جانے کے بعد اعلیٰ حضرت کے ایسے منظورِ نظر بنے کہ لوگوں کو رشک ہی نہیں حسد ہونے لگا، یہاں تک کہ حضرت تھانوی خود فرمایا کرتے تھے کہ میں یہ چاہا کرتا تھا کہ حضرت میرے اوپر سب کے سامنے اتنی شفقت نہ فرمایا کریں تو اچھا