خوانِ خلیل
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
بعد الحمد والصلاۃ:
حضرت مولانا عارف جامی ؒ نے مشتریانِ یوسف ؑ کے قصے میں نقل فرمایا ہے:
چو یوسف شد بخوبی گرم بازار
شدندش مصریاں یکسر خریدار
بہر چیزے کہ ہرکس دسترس داشت
دراں بازار بیعِ او ہوس داشت
شنیدم کزغمش زالے برآشفت
تنیدہ ریسمانے چند ومی گفت
ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم
کہ در سلک خریدارانش باشم
اسی مخلص بڑھیا کی تقلید ان سطور کی تحریر میں احقر نے اختیار کی ہے کہ ایک حبرِہمام وبحرِ قمقام یعنی:
الشیخ مولانا خلیل أحمدا
مکسوحلۃ خلۃ الرحمن
وسمي إبراہیم یوسف وقتہ
من وجہہ کالقلب في اللمعان1
المتوفی في ربیع الثاني ۱۳۴۶ھ رحمہ اللّٰہ تعالی رحمۃ واسعۃ وأفاض من برکاتہ علی أہل الدیار القریبۃ والشاسعۃ۔
کے دریائے کمالات میں سے چند رشحات وقطرات ناظرین مشتاقین کے قلوب وابصار پر بصورتِ رسالہ پاشاں کرتا ہوں جو بمقابلہ اس دریا کے امواج کے (جن کو مولانا ؒ کے حذاق عارفین معرفین عنقریب سطحِ اذہانِ عشاق معتقدین صادقین پر متلاطم ومتراکم فرمائیں گے) وہی نسبت رکھتے ہیں جو اس بڑھیا کاریسمان خزائن عزیز سے نسبت رکھتا تھا جس کے پیش کرنے میں میری بھی وہی نیت ہے جو اس بڑھیا کی تھی یعنی:
ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم
کہ در سلک خریدارانش باشم
جیسا اس کے قبل اسی نمونہ کی دو مختصر یاد داشتیں ’’یادِ یاراں‘‘ و’’ذکرِ محمود‘‘1 پیش کرچکا ہوں اور یہ ماحضر نافع ہونے کی صورت میں چوں کہ مولانا ہی کا فیض ہوگا، اس لیے ممدوح کو حضرت خلیل اللہ ؑ سے اور ان فیوض کی مبدأیت کو آپ کی شانِ میزبانی سے تشبیہ دے کران فیوض کے مجموعہ کو خوان کے اور اس کے آحاد کو جاماتِ اطعمہ2 واشربہ کے مشابہ قرار دے کر اس مجموعہ حالات کو ’’خوانِ خلیل‘‘ سے اور ہر جز کو ’’جام‘‘ سے ملقب کرتا ہوں، اور ان ہی مناسبات سے اس رسالہ کی لوح پر اس شعر کے لکھنے کا مشورہ دیتا ہوں:
گر شوی در دین مہمانِ خلیل
جامہا نوشی ازیں خوانِ خلیل
اب وہ جامات پیش کرتا ہوں، واللّٰہ یطعم ویسقي وہو یشبع ویروي۔
کتبہ اشرف علی عفی عنہ اوائل رجب ۱۳۴۶ھ
جام نمبر۱: یوں تو مولانا ؒ سے اس احقر کو مدتِ دراز سے نیاز حاصل تھا، لیکن زیادہ خصوصیت اس زمانہ سے ہوئی جب سے