الجواب: سیدی ادام اللّٰہ فیوضکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
بندے کے خیال میں سلطان میں دو وصف ہیں، ایک: حکومت جس کا ثمرہ تنفیذ حدود وقصاص ہے، دوسرا: انتظامِ حقوقِ عامہ۔ امر اول میں کوئی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا، امر ثانی میں اہل حل وعقد بوقت ضرورت قائم مقام ہوسکتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ اہل حل وعقد کی رائے ومشورہ کے ساتھ نصبِ سلطان وابستہ ہے جو بابِ انتظام سے ہے، لہٰذا مالی انتظام مدارس جو برضائے ملاک وطلبہ ابقائے دین کے لیے کیا گیا ہے بالا ولی معتبر ہوگا، ذرا غور فرماویں انتظام جمعہ کے لیے عامہ کا نصبِ امام معتبر ہونا ہی جزئیات میں اس کی نظیر شاید ہوسکے، والسلام خلیل احمد عفی عنہ ۵؍ رجب ۱۳۲۵ھ۔
فروع میں دوسرا مسئلہ جس کا حوالہ اوپر آیا تھا عدت کے متعلق تھا کہ اگر عورت خاوند یا اس کے اقربا پر زبان درازی کرے تو اس کی وجہ سے اس کو گھر سے نکالا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق بھی تحریرات بہت سی اصل کتاب ’’امداد الفتاوی‘‘ میں موجود ہیں، ایسے ہی نقودِ مدرسہ کے متعلق حضرت اقدس قطبِ عالم مولانا گنگوہی نور اللہ مرقدہ سے بھی یہی سوال کسی نے کیا تھا، حضرت گنگوہی نے اس کا جواب مرحمت فرمایا تھا جس کا ذکر ’’تذکرۃ الرشید‘‘: ۱/ ۱۶۴ پر ہے۔ عبارت اس کی یہ ہے:
شبہہ: مدرسے میں جو چندہ وغیرہ کا روپیہ آتا ہے وہ وقف ہے یا مملوک؟ اگر وقف ہے تو بقائے عین واجب ہے اور صرف بالاستھلاک ناجائز اور اگر مملوک ہے اور مہتمم صرف وکیل تو معطیٔ چندہ اگر مرجائے تو غربا اور ورثا کا حق ہے اس کی تفتیش وکیل کو واجب ہے، زمانۂ شارع ؑ وخلفا میں جو بیت المال تھا اس میں بھی یہ اشکال جاری ہے، بہت سوچا مگر قواعدِ شرعیہ سے حل نہیں ہوا۔ اور مختلف چندوں کو خلط کرنا استہلاک ہونا چاہیے اور مستہلک ملکِ مستہلک ہوکر جو صرف کیا جائے اس کا تبرع ہوگا اور مالکوں کا ضامن ہوگا۔ اگر یہ ہے تو اہلِ مدرسہ یا امینِ انجمن کو سخت دقت ہے، انتھی
الجواب از حضرت قطبِ عالم
مہتمم مدرسہ کا قیم ونائب جملہ طلبا کا ہوتا ہے، جیسا امیر نائب جملہ عالم کا ہوتا ہے، پس جو شی کسی نے مہتمم کو دی، مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے، اس کے قبض سے ملکِ معطی سے نکلا اور ملک طلبہ کا ہوگیا، اگرچہ وہ مجہول الکمیہ والذوات ہوں، مگر نائب معین ہے۔ پس بعد موتِ معطی کے ملک ورثۂ معطی کی اس میں نہیں ہوسکتی، اور مہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال نہ یہ وقف مال ہے اور نہ ملک ورثۂ معطی کی ہوگی اور نہ خود معطی کی ملک رہے، واللّٰہ أعلم۔
۱۰۔ متعلقہ صفحہ ۱۰: یہ بھی بہت طویل خط وکتابت ہے جو ’’ترجیح الراجح‘‘ حصہ دوم کے صفحہ: ۱۸۲ سے شروع ہوکر صفحہ: