صفحہ: ۵۴ اور صفحہ: ۵۵ اور تنبیہات وصیت میں فہرست صالحین للبیعہ اور مسودہ وعظ فضل العابد بیان کردہ ربیع الثانی، جس میں شیخین کبیرین مصداق یکساں دونوں کی تفضیل بعض وجوہ سے حضرت شیخ العرب والعجم ؒ پر منصوص ہے۔
اگر تتبع کیا جاوے تو بکثرت ایسے مقامات ملیں گے جن میں فضائل ان اجلہ کے مصرح ہیں، امام غزالی کی کتاب الزہد کے متعلق جس مضمون کا مجھ پر شبہہ کیا گیا ہے مجھ کو اولاً دیکھ کر حیرت ہوگئی کہ اے اللہ! یہ کیا قصہ ہے؟ میں نے اپنے ذہن میں اس کا کوئی وجود نہیں پایا۔ لیکن احتیاطاً اپنا کلام ٹٹولنا شروع کیا تو اتفاق سے وہ مقام مل گیا، دیکھا تو اس میں کسی بزرگ کا نام تک نہیں ہے صرف لفظ ’’ایک شیخ‘‘ لکھا ہے۔ معلوم نہیں کہ اس کی تفسیر کس دلیل سے خود کرلی گئی ہے، میں نے بہت سوچا۔ بہت پرانی بات ہے، خوب محفوظ نہیں، لیکن دو امر پر حلف کرتا ہوں: ایک یہ کہ میں نے حضرت ؒ سے یہ مضمون نہیں سنا، کسی ایسے شخص سے سنا ہے جس کا مقصود اس قول سے اپنی کم ہمتی کے لیے ایک سہارا ڈھونڈنا ہے، مگر مجھ کو اس شخص کی تعیین یاد نہیں رہی۔ دوسرے: اس پر حلف کرتا ہوں کہ مقصود اس سے حضرت ؒ پر نکیر نہیں۔
باقی جس عنوان کا ذکر اُس دل سوز کے کلام میں ہے اس عنوان کے الفاظ مجاز یکے شیخِ طریقت أو نحوہ ہیں، سو اول تو یہ الفاظ معلوم نہیں کہ کس کے ہیں، لیکن جس کے بھی ہوں میرے ذہن میں جو اس کے معنی متبادر طور پر اولاً آئے وہ یہ ہیں کہ باوجود درجۂ مجازیت کے بھی انسان سے لغزش ہوسکتی ہے تو اہلِ کمال کو بھی اپنی اصلاح سے غافل نہ ہونا چاہیے تو مجازیت اس
درجہ کا عنوان ہے کہ نعوذ باللہ! ان شیخ کی تنقیص کہ ایسے کو کیوں مجاز بنایا؟ اس کی بہت سی نظیرین خود اپنے مجازیں کے متعلق جابجا تحریرات میں منضبط ہیں، چناں چہ اس وقت ایک موقعے نظر کے سامنے بھی ہے: ’’الامداد‘‘ بابت محرم ۳۶ھ صفحہ: ۲۱ کہ اس میں ایک صاحب، پر جن کے مجاز ہونے کی عبارت میں بھی تصریح ہے، کس قدر لتاڑ پڑی ہے۔ اس مقام پر ظاہر ہے کہ یہی مقصود ہے کہ مجاز ہو کر بھی بے فکر نہ ہونا چاہیے کہ اس حالت میں بھی خطائیں صادر ہوسکتی ہیں۔
روایت: احقر نے اس درایت کے مضمون کا خلاصہ اپنی جماعت کے بعض حضرات اکابر کی خدمت میں (جو لباس خلۂ احمدیہ سے پیراستہ ہیں) عرض کیا تھا، اس کا جواب بخامۂ عنایت جو ارشاد فرمایا اور اصاغر کو جس کی توقع اکابر سے ہوتی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے: معلوم نہیں کہ لوگوں کو کیا مزہ آتا ہے کہ غلط روایتیں پہنچا کر اہلِ خیر کے قلوب کو دُکھاتے ہیں۔ (یہ خط بعینہ خوانِ خلیل میں آچکا ہے اس لیے خلاصہ لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی) ہر چند کہ اس تحریر کے بعد بوجہ حصولِ طمانیت کے اس مضمونِ درایت کی حاجت نہ رہتی، خصوص اس کے بعد جب کہ بفضلہ تعالیٰ مشافہتاً بھی ہر پہلو سے اطمینان