پوچھی، کیسا تواضع کا جواب ارشاد فرمایا کہ ہم نے فتوے پر عمل کیا اور فلاں شخص (یعنی احقر) نے تقوے پر عمل کیا۔1
فائدہ: اس جواب سے جس قدر تواضع اور اختلافی امر میں شقِ مقابل کے اختیار کرنے والے کے عمل کی حسنِ توجیہ مرعی ہے ظاہر ہے اور حضرت مولانا دیوبندی نے جو جواب عطا فرمایا وہ رسالہ ذکرِ محمود نمبر: ۲۴ میں مع تفصیلِ قصہ مذکور ہے۔
جام نمبر ۱۲: مولانا ؒ میں حضرات سلف کی سی تواضع تھی کہ مسائل واشکالاتِ علمیہ میں اپنے چھوٹوں سے بھی مشورہ فرماتے تھے اور چھوٹوں کے معروضات کو شرحِ صدر کے بعد قبول فرمالیتے تھے، چناں چہ بعض واقعات نمونہ کے طور پر معروض ہیں:
واقعہ نمبر ۱: ایک بار سفرِ بہاول پور2 میں اس احقر سے ارشاد فرمایا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبولِ ہدایا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے سے اشرافِ نفس نہ ہو، مگر سفر میں اکثر داعی کی عادت ہوتی ہے کہ مدعو کو کچھ ہدیہ دیتے ہیں، اس عادت کے سبب اکثر خطور بھی ایسے ہدایا کا ذہن میں ہو جاتا ہے۔ سو کیا خطور بھی اشرافِ نفس وانتظار میں داخل ہے جس کے بعد ہدیہ لینا خلافِ سنت ہے؟ اس حقیر میں کیا قابلیت تھی کہ ایسے عظیم الشان عالم اور عارف کے استفسار کا جواب دے سکوں، لیکن چوں کہ لہجۂ استفسار أمر بالجواب پر دال تھا، اس لیے الأمر فوق الأدب کے بنا پر جواب عرض کرنا ضروری تھا، چناں چہ میں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں اس میں تفصیل ہے وہ یہ کہ اس احتمال کے بعد دیکھا جاوے کہ اگر وہ احتمال واقع نہ ہو تو آیا نفس میں کچھ ناگواری پیدا ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ناگواری ہو تو اس احتمال کا خطور اشرافِ نفس ہے، اور اگر ناگواری نہ ہو تو اشرافِ نفس نہیں ہے خالی خطرہ ہے جو احکام میں مؤثر نہیں، اس جواب کو بہت پسند فرمایا اور دعا دی۔