یہ واقعہ ’’حکایات الشکایات‘‘1 حکایت نمبر: ۴ کے آخر میں مذکور ہے۔ بعد اختتامِ قصہ کے مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ اس دل سوز خیر خواہ کے ذریعہ سے بدون اپنی طرف نسبت کرنے کے، میں نے ہی یہ خبر پہنچائی تھی، تاکہ تاخیرِ تدارک سے بات بڑھ نہ جائے۔
فائدہ: اس سے مولانا کی کتنی بڑی خیر خواہی ثابت ہوتی ہے کہ میری بے خبری کو صعوبتِ تدارک کی مصلحت سے گورا نہیں فرمایا، اور اپنی طرف منسوب نہ فرمانا ممکن ہے کہ اس لیے ہو کہ زیادہ رنج نہ ہو، کیوں کہ راوی جس قدر زیادہ ثقہ ہوتا ہے اسی قدر روایت کا زیادہ اثر ہوتا ہے، واللّٰہ أعلم بضمائر عبادہ۔
جام نمبر ۹: ایک شخص نے اپنی ایک حالت کی جس کا کچھ حصہ نوم تھا اور کچھ یقظہ مشابہ بنوم تھا اور اس حالت میں غیر اختیاری طور پر ایک غیر مشروع کلمے کا زبان سے نکلنے کی اطلاع دے کر تحقیق چاہی تھی، میں نے قواعدِ شریعت وطریقت سے اس کا جواب لکھ دیا، جس کا حاصل سائل کا معذور ہونا تھا۔ چوں کہ طریقت اس وقت کالمہجور ہوگئی ہے اس لیے اس جواب کی حقیقت نہ سمجھنے سے اکثر عوام اور بعض اہلِ علم میں بھی اس کے متعلق ایک شورش2 برپا ہوگئی کہ اس کو معذور کیوں قرار دیا؟ جس کی تحقیق احقر نے ’’حکایات الشکایات‘‘3 کی حکایت سوم میں لکھی ہے۔ مولانا نے شفقت سے زبانی مشورہ دیا کہ اس سائل کے قابلِ توبیخ ہونے کے متعلق کوئی تحریر شائع ہو جائے تو شورش کم ہو جائے اور عوام کا دین بھی محفوظ رہے، انتہی بمعناہ۔
میں نے اس باب میں اپنا شرح صدر نہ ہونا عذر میں پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ اور دوسرے علما کچھ تحریر فرماویں تو میں شائع کردوں، اس کو منظور فرمایا۔ چناں چہ میں نے سوال مرتب کرکے مختلف علما سے رجوع کیا جس میں مولانا بھی تھے، سب نے اپنی اپنی رائے کے موافق جواب لکھا جو ’’الامداد‘‘4 شوال ۱۳۳۶ھ میں شائع ہوئے ہیں۔
فائدہ: اس میں بھی وہی خیر خواہی اور اس کے ساتھ دین کی حفاظت کا اہتمام ظاہر ہے۔