الشریف اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا ہے عرض کرتا ہے۔ روایاتِ فقہیہ کے دیکھنے سے یہ امر واضح ہے کہ عملِ تصویر اور اقتنائے تصویر میں فقہا کے نزدیک فرق ہے، تصویر سازی کو مطلقاً حرام اور ناجائز تحریر فرماتے ہیں اور اقتنائے تصویر کو مطلقاً ناجائز نہیں لکھتے، بلکہ بعد تغیرات جائز تحریر فرماتے ہیں، لہٰذا ان وجوہ سے زید کا قول حق معلوم ہوتا ہے کہ فوٹو لینے میں کسی جان دار کے خواہ وجہ کی طرف سے لیا جائے یا پشت کی طرف سے عدمِ جواز ہو، اگرچہ زید کی تعمیم مستبین الاعضاء ہو یا غیر مستبین الاعضاء ان دونوں کی مساوات روایات سے مفہوم نہیں ہوتی اورروایتِ ’’ترمذی‘‘ و’’ابوداود‘‘ جس کے الفاظ یہ ہیں: فمر بالتمثال الذي علی باب البیت فیقطع فیصیر کہیئۃ الشجرۃ اس امر کے اوپر دلالت کرتی ہے کہ بعد قطع راس تصویر ذی روح کی باقی نہیں رہتی بلکہ وہ کالشجرہ ہوجاتی ہے، حالاں کہ وہ تصویر ظاہراً حیوان ہی کی تصویر معلوم ہوتی ہے اور مضاہاتاً بخلق اللّٰہ جو علتِ حرمت ہے متحقق معلوم ہوتی ہے، اور نیز مخصوص راس کا مختلف فیہ ہونا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب بعض اجزائے اصلیہ مفقود ہوگئے تو وہ تصویر ذی روح کی تصویر نہ رہی، ’’ردالمختار‘‘ میں ہے: وفیہ إشعار بأنہ لاتکرہ صورۃ الراس وفیہ خلاف کما في اتخاذہا، کذا في ’’المحیط‘‘۔
معلوم ہوتا ہے کہ بعض فقہا نے ایسے جز کا حکم کل کا قرار دیا ہے اور ذی روح قرار دے کر اس کو منع کیا ہے اور بعض نے اس کو غیر ذی روح قرار دیا ہے اور جائز فرمایا ہے۔ بندے کے نزدیک ایسے اختلاف کی صورت میں اس خلاف کو نزاعِ لفظی پر محمول کیا جاوے اور حرمت کا محمل عام اس کو قرار دیا جاوے کہ جب قصداً کسی ذی روح کی تصویر پشت کی جانب سے لی جاوے تو بروئے اطلاقِ روایات ناجائز ہو اور جب کہ تصویر کا لینا مقصود نہ ہو، مثلاً کسی مکان یا جنگل یا پہاڑ کی تصویر لینی مقصود ہے اور پشت کی جانب سے کسی انسان کی تصویر آگئی یا اس قدر صغیر ہے کہ جو قریب سے بھی بدشواری فہم میں آتی ہے گویا مقدارِ طیر سے بھی کم ہے تو ایسی صورت میں جائز کہہ دیا جاوے تو بظاہر کچھ مضائقہ نہیں، واللّٰہ أعلم بالصواب، حررہ خلیل أحمد عفي عنہ۔
۸۔ متعلقہ صفحہ ۹: ’’بیان القرآن‘‘ کے حاشیہ پر مختلف تو جیہات کے بعد یہ عبارت ہے: ’’والذي تحرر عندي فیہ وفیما ورد من أمثالہ علی تقدیر ثبوت ہذہ الروایات أن ہولاء رضي اللّٰہ تعالی عنہم سمعوا القرآئۃ التي اختاروہا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی آلہ وسلم تسلیما ولم یسمعوا القرائات الموجودۃ۔ ثم أن تلک القراء ۃ نسخت ولم یبلغہم الخبر، فداوموا علیہا وأنکروا غیرہا بمخالفۃ ظاہر القواعد وعدم سماعہ، کما کان أبو الدرداء یقرأ ’’والذکر والأنثی‘‘ وکانت عائشۃ تقرأ ’’خمس رضعات‘‘ فاحفظ، کذا أفاد جامع الفضائل العلمیۃ والعملیۃ‘‘۔ مولانا خلیل احمد انبیٹھوی دامت برکاتہم۔
۹۔ متعلقہ صفحہ ۱۰: یہ ’’امداد الفتاوی‘‘ جلد چہارم طبع ہند کے ص: ۲۲۷ سے ص: ۲۳۶ تک ہے۔ علمی مسائل ہیں جس کا