فائدہ: اس واقعہ میں مولانا ؒ کے چند کمالات ثابت ہوتے ہیں، ایک: تواضع جس کے سلسلہ میں یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے: دقیق تقوی کہ اشراف کے احتمالِ بعید تک نظر پہنچی اور اس پر عمل کا اہتمام ہوا۔ تیسرے: اتباعِ سنت جیسا کہ ظاہر ہے۔ چوتھے: اپنے معاملہ میں اپنے نفس کو متہم سمجھا کہ اپنی رائے پر وثوق نہیں فرمایا ورنہ جس کی نظر اتنی دقیق ہو کیا اس فیصلے تک وہ نظر نہیں پہنچ سکتی تھی؟
واقعہ نمبر ۲: ایک بار خود افادتاً فرمایا اور زیادہ یاد یہ پڑتا ہے کہ حضرت مولانا گنگوہی سے نقل فرمایا تھا کہ قرآن مجید میں جو اوقاف لازمہ ہیں وہ ایسے ہی مواقع پر ہیں جہاں وصل کرنے سے ایہام خلافِ مقصود کا ہوتا ہے، چناں چہ ظاہر ہے، مگر اس آیت میں کفار کا قول منقول ہے: {وَقَالُوا اتَّخَذَ اﷲُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ} اور وَلَدًا پر وقف نہیں، حالاں کہ قاعدۂ مذکورہ کا مقتضا یہاں پر لزومِ وقف تھا، کیوں کہ وقف نہ ہونے سے ایہام ہوتا ہے کہ سبحانہ بھی ان ہی قائلین کا قول ہے، حالاں کہ یہ ان کے قول {اتَّخَذَ اﷲُ وَلَدًا} کا رد اور ابطال ہے۔ سو اس میں نکتہ یہ ہے کہ تنزیہ میں جہاں تک ہو تعجیل کی جائے تالی یا سامع کو نافینِ تنزیہ کے قول کے بعد ذرا بھی انتظار نہ ہو کہ اس قول کے متعلق کیا فیصلہ فرمایا گیا ہے، انتہی بمعناہ۔
باوجود یہ کہ خود یہ نکتہ ارشاد فرمایا، مگر ایسے ہی ایک مقام کے متعلق (جس کی تعیین مجھ کو یاد نہیں رہی) احقر سے فرمایا کہ ’’یہاں دفعِ ایہام کے لیے وقف ہونا لازم تھا، مگر ائمۂ وقف نے یہاں وقف کا حکم نہیں فرمایا‘‘۔ مجھ کو وہ نکتہ یاد آگیا، میں نے عرض کیا کہ ایک بار آپ نے یہ نکتہ فرمایا تھا، یہاں بھی وہی نکتۂ تعجیل ابطالِ باطل ہوسکتا ہے۔
فائدہ: علاوہ تواضع کے اس احتیاطِ بلیغ کو ملاحظہ فرمایا جاوے کہ باوجود یہ کہ اس نکتہ پر نظر تھی، مگر خصوصیتِ مقام کے سبب دوسرے سے مشورہ فرمایا کہ شاید یہاں کوئی دوسرا داعی ہو۔ علمائے رسوم ایسی احتیاطیں کہاں کرتے ہیں، یہ اہلِ حقائق ہی کا حصہ ہے۔
فائدہ: اس نکتۂ مذکورہ کے علاوہ احقر کے ذہن میں ایسے مقامات کے متعلق ایک اور حقیقت آئی ہے۔ بنظر علما کی نظر ثانی کے عرض کرتا ہوں کہ ایہام کے مواقع تتبع سے دو قسم کے معلوم ہوئے ہیں، ایک: وہ کہ اہلِ حق کی طرف انتسابِ