اور فتوی دہلی، مفتی کفایت اللہ صاحب کی طرف سے بہت تفصیلی ذکر کیے گئے ہیں، اور بہت طویل بحث اس سلسلہ میں کی گئی ہے اس سب کو تو یہاں نقل کرانا بہت دشوار ہے، جس کو دیکھنا ہو اصل ’’الامداد‘‘ میں دیکھے، اس میں ایک دوسرا خواب بھی ایک شخص کا حضرت ابوہریرہ ؓ کی زیارت اور اس خواب کے متعلق حضرت تھانوی ؒ سے سوال اور حضرت ؒ کا جواب مع تفصیل وتعبیر نقل کیا گیا ہے، مضمون تو بہت اہم ہے لیکن چوں کہ خاص اہلِ علم سے متعلق ہے اور طویل بھی بہت ہے کہ ساٹھ صفحے کا ہے اس لیے یہاں نقل نہیں کیا گیا۔
۱۴۔ متعلقہ صفحہ ۱۲: یہ وعظ مدرسہ مظاہر علوم کے سالانہ جلسہ جامع مسجد میں بروز یک شنبہ ۱۰؍ جمادی الثانیہ ۱۳۳۶ھ میں ہوا جو ڈھائی گھنٹے تک مسلسل ہوا۔ یہ وعظ مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی تھانوی حال شیخ الاسلام پاکستان نے نقل کیا تھا۔ چار ہزار سے زائد مجمع تھا۔ وعظ تو ۴۴ صفحے کا ہے جس تمہید کا حضرت حکیم الامت نے ’’خوانِ خلیل‘‘ میں ذکر کیا ہے اس کو اس وعظ کے شروع میں مولانا ظفر احمد صاحب ناقلِ وعظ نے بھی ذکر کیا ہے۔
تنبیہ: جس سال یہ وعظ جلسۂ مظاہر علوم سہارن پور میں ہوا ہے اس سال حضرت اقدس سیدی حکیم الامت دامت برکاتہم پر ایک شخص کے خواب کی وجہ سے عوام کالأنعام نے زبانِ طعن بہت کچھ دراز کر رکھی تھی، اخبارات میں بھی اس کا بہت کچھ شور وغو غارہا اور یہ سنت اللہ ہے کہ قائم بالامر کے ساتھ اول اول بہت مخالفتیں عوام کی طرف سے ہوا کرتی ہیں، مگر آخر میں سب کو گردنیں جھکانا پڑتی ہیں، بہرحال جب جلسۂ مذکورہ میں حضرت حکیم الامت تشریف لے گئے اور آپ کا بیان ہونا قرار پایا تو بیان سے پہلے سیدی ومرشدی حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم نے مولانا سے فرمایا کہ اس وقت بہت بڑا مجمع موجود ہے، اس کے بعد کی عبارت حضرت سہارن پوری کے اس ارشاد تک کہ ’’جب آپ کو گوارا نہیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں‘‘ کے بعد ’’مظاہر الاقوال‘‘ کی تمہید میں یہ ہے: اس کے بعد حضرت حکیم الامت منبر پر تشریف لے گئے اور بیان شروع فرمایا تو بے ساختہ زبان پر وہ آیت آئی جو حضرت صدیقہ کی برأت میں حق تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے کہ ان کے متعلق بھی ایک افترا وبہتان منافقوں نے تراشا تھا، جس میں کچھ مسلمان بھی ملوث ہوگئے تھے، حق تعالیٰ نے ان مسلمانوں کو جنھوں نے اس بہتان میں حصہ لیا تھا ان آیات میں سخت دھمکایا ہے۔
حضرت حکیم الامت نے اس آیت کو تلاوت فرماکر حفاظت لسان کی تاکید وضرورت بیان فرمائی۔ بعد بیان کے فرماتے تھے کہ میں نے تو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے ارشاد کو قبول نہ کیا تھا، مگر حق تعالیٰ نے مولانا کی خواہش پوری کردی کہ مولانا جو کچھ چاہتے تھے وہی بیان ہوگیا۔ یہ مولانا کی توجہ کا اثر تھا کہ میری زبان سے یہی مضمون بیان ہوا جس کی