فائدہ: اس سے مولانا کا تعلق نیاز مندوں کی مصالحِ ظاہرہ وباطنہ سے ظاہر ہے، یہ شان فیوضِ نبوت سے ہے، ورنہ مقامِ ولایت کے فیض کی شان دوسری ہوتی ہے کہ کسی مصلحت میں دخل نہ دیا جائے اور اول کا اکمل ہونا معروف ہے۔
جام نمبر ۲۰: اور اس جام میں دوسرے نوعِ جام کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس شعر میں مذکور ہے:
ہرآں کہ زاد بناچار بایدش نوشید
زجام دہرمے کل من علیہا فان
یعنی اس میں وفات کے بعد برزخ کا ایک واقعہ مذکور ہے گوظنی ہے، لیکن مبشرات میں سے ہونے کے سبب قابلِ ذکر ہے اور یہ ایک ثقہ کا خواب ہے جن کا نام محمد عمر فاروق مقیم غازی پور زیر قلعہ کہنہ ہے، ان کا خط ۱۳؍ رجب ۱۳۴۶ھ کو میرے پاس آیا جو بعینہ منقول ہے اور اسی پر اس عجالہ کو ختم کرتا ہوں، وہو ہذا: حال میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ کی بھی زیارت سے شرف یاب ہوا ہوں، مولانا مرحوم کو خواب میں بہت ہی خوش دیکھا، احقر نے عرض کیا کہ آپ تو زندہ ہیں لوگوں نے ناحق وفات کی خبر اڑادی، اس پر مولانا نے ہنس کر فرمایا: میں تو زندہ ہوں پھر یہ دیکھا کہ مولانا کسی طالب علم کو مالا بدمنہ پڑھانا چاہتے ہیں، انتہت الرؤیا۔
فائدہ: تعبیر ظاہر ہے یہ ارشاد کہ میں تو زندہ ہوں مصداق ہے اس قول کا:
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما
اور مالا بدمنہ پڑھانا اشارہ ہے مولانا کے جامع بین الفقہ الظاہر والفقہ الباطن کی طرف، کیوں کہ مالا بدمنہ کے مصنف دونوں کے جامع ہیں، اس کے ساتھ ہی اشارہ ہے شان غلبۂ فقہ ظاہر کی طرف، چناں چہ مالا بدمنہ میں غالب حصہ یہی ہے، واللّٰہ أعلم۔