میں کان پور کا تعلق چھوڑ کر وطن3 میں مقیم ہوا اور سہارن پور کی آمد ورفت میں کثرت ہوئی، جس میں مظاہرِ علوم کے سالانہ جلسہ کے موقع پر تو گویا بالالتزام حاضری ہوتی تھی اور متفرق طور پر بھی بکثرت آنا جانا رہتا تھا اور ہر حاضری میں طویل طویل اوقات مولانا کی صحبت سے مستفید رہتا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود یکہ میں ہر طرح چھوٹا تھا عمر1 میں بھی، طبقہ2 میں بھی اور علم وعمل میں تو مجھ کو کوئی نسبت ہی نہ تھی، اس میں تو چھوٹے بڑے ہونے کی نسبت کا ذکر بھی ایک درجہ میں ادّعا ہے علم وعمل کا، مگر مولانا کا برتاؤ مساویانہ تو یقینی ہی تھا، بعض اوقات ایسا برتاؤ فرماتے تھے کہ جیسے چھوٹے کرتے ہیں بڑوں کے ساتھ، اس سے زیادہ کیا درجہ ہوگا تواضع کا، یہ بنا تو یقینی تھی اور احتمالی یہ بھی ہے کہ شاید اس واقعہ کو بھی دخل ہو کہ مولانا3 بواسطہ حضرت گنگوہی ؒ کے اعلیٰ حضرت حاجی صاحب ؒ سے منتسب تھے اور یہ احقر بلا واسطہ،4 اگر یہ بھی تھا تو اس حفظِ مراتب کا جو کہ حکمتِ عملیہ کا اعلیٰ شعبہ ہے کامل ثبوت ہوتا ہے۔
فائدہ: تواضع وحفظِ حدود کا کمالاتِ مقصودہ میں سے ہونا ظاہر ہے۔
جام نمبر ۲: مولانا نے اپنے ایک معتقدِ خاص سے فرمایا تھا کہ مجھ کو اشرف سے اس وقت سے محبت ہے جس وقت اس کو خبر بھی نہ تھی۔
فائدہ: اس واقعہ میں ایک خاص سنت کا اتباع ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کو کسی سے محبت ہے تو اس کو خبر کردے انتھی، اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ اس میں تطییب ہے قلبِ مسلم کی، نیز جلب ہے اس کی محبت کا اور باہمی تحابب وتوادد کے ثمرات ظاہر ہیں۔
جام نمبر ۳: باوجود میرے کم مرتبہ ہونے کے گاہ گاہ مجھ کو ہدایا سے بھی مشرف فرمایا ہے۔
فائدہ: اس میں علاوہ سنتِ تہادی کے کہ سبب ہے تحابب مطلوب کا، تواضع بدرجۂ غایت بھی ہے، کیوں کہ تہادی بشان