میں چھ ماہ قیام کرنے کی نیت سے روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر حضرت حاجی صاحب کی وہ شفقتیں اور خصوصی تو جہات بڑھیں کہ دیکھنے والوں کو حسد ہوگیا۔ حضرت حکیم الامت کے الفاظ ہیں ’’ارادہ تو چھ ماہ قیام کا تھا، مگر لگائی بجھائی کرنے والوں اور حاسدوں سے یہ اندیشہ ہوا کہ ابھی تو میں مقبول ہوں آیندہ کہیں یہ حاسدین حضرت کو میری طرف سے مکدر نہ کردیں اس لیے ہفتہ عشرہ پہلے ہی روانہ ہوگیا۔‘‘ اس دوران قیام میں حضرت حاجی صاحب نے سر سید مرحوم کو ایک خط حضرت تھانوی سے لکھوایا جس کے بھیجنے میں بعض خدام مانع ہوئے۔ حضرت حاجی صاحب ؒ نے کئی دفعہ فرمایا کہ اگر وہ خط بھیج دیا جاتا تو امید ہے کہ اصلاح ہوجاتی، مگر ہمارے دوستوں کی رائے نہ ہوئی، یہ ’’خط اصلاح الخیال‘‘ کے آخر میں طبع ہوگیا ہے۔
۶۔ متعلقہ صفحہ ۸: یہ واقعہ آپ بیتی ۴/ ۷۴ پر حضرت تھانوی کے حالات کے ذیل میں اس سیہ کار نے بھی لکھا ہے، کیوں کہ یہ سیہ کار بھی اس دعوت میں شریک تھا، اس میں بندے نے باسٹھ رکابیاں لکھی ہیں اور اس دعوت کی کچھ مزید تفصیل بھی لکھی ہے شرکائے طعام تو چار ہی تھے: حضرت سہارن پوری نور اللہ مرقدہ اور یہ سیہ کار اور خود حضرت تھانوی اور وہ رئیس تھانہ بھون جن کا اسمِ گرامی جب حضرت ؒ نے نہیں لکھا تو میں کیوں لکھوں؟
۷۔ متعلقہ صفحہ ۹: یہ محاکمہ تتمہ جلد رابع ’’فتاوی امدادیہ‘‘ کے آخر میں ۳۲۲ پر بہت تفصیل سے لکھا ہوا ہے، چار صفحات پر ۳۲۲ سے مذکور ہے،جس میں زید وعمرو کے اقوال اور ان کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں، ابتدا اس مضمون سے ہے:
’’محاکمہ متعلقہ مسئلۂ تصویر از مولانا خلیل احمد صاحب‘‘۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ زید وعمرو میں حسبِ ذیل مکاتبت ہوئی، اس میں حق کس کی تقریر ہے؟ اور اگر زید کی تقریر حق ہے تو عمرو کی اخیر تقریر کا کیا جواب ہے؟ وجہ اس مکاتبت کی یہ ہوئی کہ عمرو نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ پشت کی طرف سے فوٹو لینے میں جس میں چہرہ نہ آوے گنجائش معلوم ہوتی ہے، اور ’’درِمختار‘‘ کی روایت ممحوۃ الوجہ سے اس کا استدلال تھا، اس پر زید کی تقریر ہوئی، پھر اس پر آگے سلسلہ چلا۔ آگے زید وعمرو کی طویل مکاتبت جو مسئلۂ فقہیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں کثرت سے عربی عبارتیں ہیں مذکور ہے۔ ان سب کی یہاں ضرورت نہیں اصل ’’امداد الفتاوی‘‘ میں جس کو دیکھنا ہو دیکھ لے، اس جگہ تو صرف خوانِ خلیل کی مناسبت سے حضرت سہارن پوری کا محاکمہ نقل کرنا ہے جس کی طرف حکیم الامت نے اپنے اس جام میں اشارہ فرمایا ہے۔
الجواب حامداً ومصلیاً
بندۂ ناچیز باعتبار اپنے علم وفہم کے اس قابل نہیں ہے کہ علمائے اعلام کے اختلاف کا فیصلہ کرسکے، مگر ہاں! امتثالاً للأمر